Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Sayed Aasif Dasnavi Taruf wa Ghazal

سید آصفؔ دسنوی

نئی نسل کے تازہ کار شعرا میں سید آصف دسنوی تیزی سے اپنی شناخت بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کی شعری صلاحتیوں کا اعتراف کرتے ہوئے علیم صبانویدی صاحب رقمطراز ہیں۔’’ آصف نے جہاں لفظیات کو برتنے میں ندرت سے کام لیا ہے وہیں جدید حسیت کا ثبوت بھی دیا ہے اور زندگی کے تلخ وشیریں حقائق کو فنی مہارت کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر جا نتے ہیں۔‘‘
۲۷؍اگست ۱۹۶۶ء؁کو ان کی ولادت کٹک کے ایک ایسے علمی خانوادے میں ہوئی جس کا ماحول آج بھی شعر وادب کی خوشبوئوں سے رچا بسا ہے۔ دادا مرحوم پروفیسر سید منظر حسن دسنوی اپنے دور کے معروف و معتبر شاعر ادیب اور افسانہ نگار تھے۔ والد محترم جناب سید شکیل دسنوی صا حب بھی اردو کے عالمی منظر نامہ میں ایک منفرد شاعر ادیب، ناقد اور تبصرہ نگار کی مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ اس طرح شاعری آصف کو ورثہ میں ملی اور وہ اس سہ نسلی منظر نامہ کے تیسرے زینے پر کھڑے اپنے خاندان کی شعری روایت کی توسیع کرتے نظر آرہے ہیں۔ انجنیرنگ کے بعد سعودی عرب کے ایک تعمیراتی فرم سے کچھ عرصہ وابستہ رہے۔ اب وطن لوٹ کر اپنا کنسلٹنسی کا ادارہ چلا رہے ہیں اور ساتھ ہی مشق سخن بھی جاری ہے۔ ایک شعری مجموعہ ’’ کہی ان کہی‘‘ زیر ترتیب ہے۔ دوماہی سلسلہ (  موجودہ نام ادبی محاز)کے جنوری فروری کے شمارے میں ان پر ایک خصوصی گوشہ کافی مقبول ہوا ہے جسکے بعد بر صغیر کے گوشہ گوشہ سے ان کو تعریفی خطوط اور فون پر مبارکبادیاں ملی ہیں۔ واقعئی سید آصف دسنوی ایک گنجینیہ خفتہ کی طرح تھے اور جنہیں دریافت کر کے عالم اردو سے روشناس کرانے کے سہرا ادبی محاذکے سر جاتا ہے۔ یہاں ان کی ایک ایسی غزل پیش ہے جو جمالیاتی چاشنی کے ساتھ شاعر کی ناستلجیائی کیفیت کی تر جمانی کرتی ہے۔ 
رابطہ۔
C-12سیکٹر۔6،
   سی ڈی اے کالونی۔ بیڑ اناسی۔ کٹک۔753014
  (اڑیسہ) 
غزل


رات کہرے میں لپٹی سی در پہ رکی اور فضائو ں میں خنکی سی بڑھنے لگی 
میری کھڑکی سے آکر کرن چاند کی، میرے بستر پہ جیسے مچلنے لگی

میرا مونس اکیلا وہی پیڑ تھا، جسکے سائے میں ماضی تھا سمٹا ہوا 
آج چپکے سے آکر مرے لان میں، یہ پرچھائیں کس کی ٹہلنے لگی

اپنے کمرے کے کونے کی اک میز پر ایک تصویر چپ چاپ تکتی رہی
 جب بھی دیکھا ہے اس کو ذرا پاس سے چشم نم سے شکایت جھلکنے لگی

ایک سایہ سا پھاٹک پہ آکر رکا، میرے گھر کی سبھی کھڑ کیاں کھل گئیں
کتنا مانوس تھا، کتنا خاموش تھا، اس کو دیکھا تو شمع پگھلنے لگی

مجھ کو خدشہ تھا سب کچھ بدل جائے گا ، رنگ الفت کا اک دن اتر جائے گا  
آج دیکھا جو آصفؔ کئی سال پر ،آنکھ سے اجنبیت جھلکنے لگی

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages