Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Sayeda Mohar Taruf wa Ghazal

      سیدہ مہر

اورنگ آباد مہاراشٹر کی شعری فضائوں میں سیدہ مہر صاحبہ کی نسائی آواز جو غنائی ارتعاش پیدا کر رہی ہے اب اس کی بازگشت ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ وہ افسانے بھی لکھتی ہیں مگرشاعری ان کی پہلی ترجیح ہے اور نعت محبوب صنف سخن۔ ساتھ ہی غزل اور نظم میں بھی ان کی طبع رساکے جو ہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی شاعری جے پی سعیدؔ صاحب کی نظر میں اردو ادب کا ایک بیش قیمت  اثاثہ ہے۔ بقول میر ہاشم ان کی غزلوں کی نسائی آواز متاثر کرتی ہے اور محب کو ثر صاحب فرماتے ہیں ان کی شاعری زلف وعارض اور چشم وابرو کی حکایت نہیں بلکہ زندگی کے حادثات اور شکست وریخت کی تصویر ہے۔
حیدر آباد کے ایک علمی خانوادے میں انہوں نے آنکھیں کھولیں ۔ گریجویشن کے بعد مدرسہ فوقانیہ نسواں سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ایم اے ڈی ایڈ کرنے کے بعد ایک معلمہ کے عہدے سے ترقی کر کے پہلے جونیر کالج کی پرنسپل اور آخر میں ڈسٹرکٹ اڈلٹ ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت سے وظیفہ یاب ہوئیں۔ حج کی سعادت بھی حاصل کر چکی ہیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے اور غزلیں حریم لکھنو، سیاست ، انقلاب، شاداب، گلکدہ خوشبو کا سفر کے ساتھ کئی دیگر مقتدر اخبارات ورسائل کی زینت بنتی رہی ہیں ۔ ابتک تین مجموعے سفر تابندہ (سفرنامہ)، ذکر جاوداں (نعتیہ) اور بساط فکر ( غزلیہ) شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ زیر نظر غزل ان کی فکری طہارت اور تعمیری سوچ کا عمدہ نمونہ ہے۔
رابطہ۔ معرفت ڈاکٹر شجاعت نواز خاں۔ پلاٹ نمبر۔8نزدعریش مسجد۔کٹ کٹ گیٹ اورنگ آباد431001

شہرنے لاکھوں کو جبکہ بے مکاں رہنے دیا
بجلیوں نے کس طرح یہ آشیاں رہنے دیا

چاند سورج ہی نہیں ہر شے کو ہے آخر فنا
میرے مالک نے ہے خود کو جاوداں رہنے دیا

بستیوں کی بستیاں تہہ درزمیں ہوتی رہیں
پھر بھی رب نے یہ جہانِ کن فکاں رہنے دیا

پاکبازی ان کی زینت بن گئی قرآن میں
حضرتِ یوسف کو زیبِ داستاں رہنے دیا

وقت نے لہجہ میں کردیں تلخیاں پیدا مگر
دہر میں پھر بھی مرا حسن بیاں رہنے دیا

مہرؔ اس میں شک نہیں حیرت زدہ ہوں آج تک
دل پہ مر ہم رکھ کے بھی کیوں خونچکاں رہنے دیا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages