Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Sayyed Ahmed Sahat Taruf Aur Ghazal

سید احمد سحرؔ

دوستی شیوہ‘ وفا پیشہ‘ خلوص اپنا شعار
بدگمانی کوئی کرتا ہے تو کرنے دیجئے
بدگمانی کے اس دور میں جب کہ تشکیک کی دیواریں دلوں کے درمیان حائل ہیں بڑے ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دوستی‘وفا اور خلوص کی خوشبو تقسیم کرنے والے سید احمد سحر صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔۲۴؍جنوری ۲۰۰۹؁ء کووہ اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے(آمین)
شہرِدل شاہجہانپوری میں ان کی ولادت ۱۵؍اگست۱۹۳۵؁ء کو ہوئی تھی۔میونسپلٹی بورڈ میں۱۹۵۱؁ء سے ملازم ہوئے اور اسی کے ساتھ شاعری کا آغاز بھی کیا۔اپنے ماموںجناب ارشد حسین رشیدؔ شاہجہانپوری سے انہیں شرفِ تلمذ حاصل تھا۔شاعری میں خوب نام کمایا حمد وثنا‘غزل‘ رباعیات اور قطعات پر مبنی گیارہ مجموعوں سے دامنِ اردو کو اس طرح مالا مال کیا ہے کہ تار  یخِ ادب  میں ان کا نام ہمیشہ درخشاں رہے گا۔ایک کلیات زیرِ ترتیب تھی اوردو مجموعے پریس کے حوالے کر دئے گئے تھے۔پتہ نہیں اب ان کتابوں کا کیا حشر ہوگا۔ بہرِ حال اپنے پیچھے جو گرانمایہ ادبی ذ خیرہ چھوڑ گئے ہیںوہ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں تازہ رہینگے اور ان کی شاعری ہمیں اس صدی کی تصویر بھی دکھاتی رہے گی۔ خود انہی کی زبانی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:۔
ہماری شاعری اپنی صدی کی سحرؔ منھ بولتی تصویر ہو گی
رابطہ۔معرفت حسرت کمالی۔قاضی خیل۔شاہجہانپور
غزل

نشترِ غم کو رگِ جاں  میںاترنے دیجئے
دل کو اک تجربہ کرنا ہے تو کرنے دیجئے

شوق  میں حد سے گزرتاہے گزرنے دیجئے
کوئی مرنے پہ کمر بستہ ہے مر نے دیجئے

کون ہے مد عیٔ شوقِ و فا کوئی نہیں
اب مجھے کو چئہ قا تل سے گزرنے دیجئے

ہونے دیجے ابھی خشک اور ذرا کام ودہن
اور پیمانٔہ احساس کو بھرنے دیجئے

آخر اس حال کو دے یہ زمانہ کو ئی نام  
خود بخود کرب سے آثار ابھرنے دیجئے

سا غرِ خونِ تمنا سے ہوں سر شار اے سحرؔ
اب جو میخانہ سنورتا ہے سنورنے دیجئے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages