Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Waseem Akhtar Aleeg Taruf wa Ghazal

وسیم اخترؔ(علیگ)

۸۰؍ کے دہے سے شعری سفر کا آغاز کرنیوالوں میںایک متوازن رجحان پایا جاتا ہے۔ان میں جدیدیت کی وہ نعرہ بازی نہیںجو ابتدائی دور کا خاصہ رہی ہے۔ایسی ہی متوازن راہوں پرچلنے والوں میں ایک نمایاں نام وسیم اختر صاحب کا بھی ہے جن کی غزلوں میں تازگی‘فکر وخیال کی ندرت اور لہجے کی متانت کے ساتھ کلاسیکی شاعری کی نرمی وخنکی بھی پائی جاتی ہے۔
پورا نام وسیم اختر خاں ہے اور وسیم اخترؔ ادبی شناخت۔علی گڈھ میں ان کی ولادت۱۹۶۷؁ء کو ہوئی۔۱۹۸۲؁ء سے اردو شاعری کی مشاطگی میں مصروف ہیں۔ملک کے مایہ ناز ادیب‘شاعر وناقد ڈاکٹر اسلم حنیف صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔گیت کی شکل میں ان کی اولین تخلیق ماہنامہ صریر کراچی کی زینت بنی۔اس کے بعد ملک کے مختلف رسائل میں اشاعتِ کلام کا سلسلہ جاری ہے۔انہوں نے اپنے سوانحی پس منظر کی تفصیلات نہیں دیں مثلاًتعلیم‘مشغلہ وغیرہ کا خانہ خالی رکھا۔ان کے والدِ محترم کا نام بھی پڑھا نہیں جاسکا۔بہرِ حال غزل کے علاوہ نظم‘رباعی‘دوہے‘ہائیکو‘ماہئے اور ثلاثی بھی کہتے ہیں لیکن بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیںاور ان کی غزلوں میںکلاسیکیت اور جدیدیت کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔زیرِ نظر غزل بھی اسی ذیل میں آتی ہے جس میں آج کی پر ہنگام زندگی‘انسان کی تنہائی پسندی اور جذبۂ مسابقت کے ساتھ ذاتِ باری تعالیٰ سے گہرے عقیدتمندانہ جذبات ان کی فکری طہارت کا برملا اظہار ہیں۔
رابطہ۔اسلامیہ کالونی۔انوپ شہر روڈ۔جمال پور۔علیگڈھ۔202002 (یو۔پی)

غزل

یہ کیسا مرے چاروں طرف شور بپا ہے
دل گوشہ نشینی پہ بضد ہونے لگا ہے

انوار کی بارش سے ہے ہر لمحہ معطر 
کیا دل کے دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے

جوغم کا مداوا نہ کرے ایسی خوشی کیا  
ہو باعثِ تسکین توکیا درد برا ہے

اعجاز ہے یہ بھی کہ ہراک جرمِ محبت
دنیا نے مرے نام سے منسوب کیا ہے

چھپ کر بھی کوئی جرم جو کرتا ہوں تو پھر بھی
احساس سا ہوتا ہے کوئی دیکھ رہا ہے

ماتھے پہ ابھر آئی ہیں کس سوچ کی شکنیں
آئینہ مجھے دیکھ کے مایوس ہوا ہے

سایہ ترا پھر کیوں مرے سائے سے خجل ہے 
حالانکہ ترا قد تو مرے قد سے بڑا ہے

لگتا ہے کہ دنیا مرے قدموں میں نگوں ہے
اخترؔ ترا سر آج یہ کس در پہ جھکا ہے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages