Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Yunus Tayyab Taruf wa Ghazal

یونس طیبؔ

        اداس نسلوں کے حْق میں ہمارے نقشِ قدم
        چھپے ہوئے ہیں کہیں گنجِ شائیگاں بن کر
یونس طیبؔ صاحب کا محولہ بالا شعر آج کی نئی نسل کے شاعر کی دانشورانہ سوچ اور فکری اڑان کا پتہ دیتا ہے۔اکیسویں صدی کے بطن سے پیدا ہونے والی یہ نئی نسل پامال راہوں پر چلنے کی بجائے نئے نئے منطقوں کی جستجو میں سرگرداں ہے اور اس کے نقش قدم اداس نسلوں کو پوشیدہ گنج شائگاں کی نشاند ہی کا رہبرانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ یونس صاحب کی تخلیقی عمر کم ہونے کے باوجود شاعری ان کے بالیدہ شعور کی غمازی کر رہی ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ادبی حلقوں میں وہ جلد ہی اپنا مقام بنا لینگے۔
پورا نام شیخ محمد یونس طیب ہے اور شعری شناخت یونس طیبؔ۔ والد محترم کا اسم گرامی جناب شیخ محمد ہے آندھرا پردیش کے ضلع کڈپہ میں ۱۵؍جولائی ۱۹۷۲ء؁ کو ولادت ہوئی ۔ ایم اے بی ایڈ ہیں اور درس و تدریس کا محترم فر یضہ انجام دے رہے ہیں۔ شاعری کا آغاز ۲۰۰۴ء؁ میں کیا۔ کڈپہ کے معروف شاعر، ادیب، ناقدو صحافی ڈاکٹر اقبال خسرو قادری صاحب سے مشورئہ سخن کرتے ہیں۔ زیر نظر غزل عصر حاضر کے انسان کے گمان و یقین، امید و بیم، جھوٹ اور سچ، ابر باراں اور پیاسی دھرتی اور بے چہرہ زندگی کا اشاریہ ہے۔ 
رابطہ۔ 7/896  دستگیر جھنڈا سٹریٹ۔ کڈپہ۔ (A.P) 516001

غزل

رہے سخن کا یہ صحرا رفیقِ جاں بنکر
مرا کلام بھی گونجے یہاں اذاں بنکر

اگر گمان کی تردید کر رہا ہے یقیں
تو پھر یقین ابھرتا ہے کیوں گماں بنکر

بدل کے رکھ دیا اک جھوٹ نے جہاں میرا
سسکتی رہ گئی سچائی بے زباں بنکر

پگھل رہا ہے افق پر تھکا ہوا سورج
ہماری ڈوبتی امید کا نشاں بنکر

اداس نسلوں کے حق میں ہمارے نقشِ قدم
چھپے ہوئے ہیں کہیں گنجِ شائگاں بنکر

کہاں کہاں پہ برستا سحاب کا ٹکڑا
تمام دشت تھا پیاسا دھواں دھواں بنکر

مرے قریب سے گزری تھی زندگی طیبؔ
ؔمیں دیکھتا ہی رہا گردِ کارواں بنکر

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages