Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Zaheer Ranibinnuri Taruf Wa Ghazal

ظہیر رانی بنّوری

رسائل میں اشاعت کلام اور ریڈیو و دوردرشن پر کلام کی نشریات کے توسط سے ظہیررانی بنوری ایک جانا پہچانا نام ہے۔ پانچ مجموعوں کے خالق ہیں جن میںسے ’’ تین مٹھی چاول ‘‘ اور ’’ وقت کی آواز ‘‘ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہیں جب کہ ’’ کلیاں گلاب کی‘‘ اور  ؔؔ’’گلستان ‘‘ان کی طفلی نظموں کے مجموعے ہیں۔ ظہیر صاحب کی شاعری کے مطالعہ سے یہ تصور ابھرتا ہے کہ انہیں روایت کی پاسداری عزیز ہے۔ چنانچہ عظیم شعری  روایتوں سے رشتہ استوار رکھتے ہوئے عصری حالات کو اس خوبی سے شعری پیکر عطا کرتے ہیں کہ شعریت کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی ہے۔
پورا نام ظہیرالدین اور ظہیر رانی بنوری ادبی پہچان ہے ان کے والد گرامی حضرت میاں اپنے علاقہ کی ایک محترم شخصیت تھے رانی بنور (کرناٹک) میں ظہیر صاحب کی ولادت ۱۲؍ فروری ۱۹۳۸ء؁ کو ہوئی۔ ایم اے بی ایڈ ہیں۔ درس و تدریس کے معزز پیشہ سے سبکدوشی کے بعد زبان و ادب کی بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنارکھاہے۔ شاعری میں حضرت نیاز وارثی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ سردست ریڈیو دھاروار کے اردو شعبہ شیرازہ گل میں بحیثیت شاعر سنیر آرٹسٹ ہیں اور اکثر و بیشتر آل انڈیا مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر غزل روایتی ہوتے ہوئے بھی عصری میلانات سے ہم آہنگ ہے۔
رابطہ۔ مرتنجئے نگر۔ رانی بنوری۔ 581115 (کرناٹک)
غرل

تری جفانہ تری دشمنی سے ڈرتا ہوں
مگر یہ سچ ہے تری دوستی سے ڈرتا ہوں

کہیں نہ چھوڑدے متقتل میں لا کے تو مجھکو
اے راہ بر میں تری رہبری سے ڈرتا ہوں

کہ فرق کچھ نہ رہا مرگ و زندگانی میں
قضا کا خوف نہیں زندگی سے ڈرتا ہوں

ہر اک خوشی ہے یہاں درد کی نئی تمہید
یہ سوچ کر ہی خیالِ خوشی سے ڈرتاہوں

بنادے مجھکو جو مغرور اہلِ دنیا میں
میں ایسی جھوٹی انا اور خودی سے ڈرتا ہوں

ظہیرؔ یونہی رہے انتظار کی لذت
وہ آنہ جائے کہیں میں ابھی سے ڈرتا ہوں
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages