Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Zain Ul Aabideen Taruf Wa Ghazal

زین العابدین راشدؔ

مغربی بنگال کی نئی نسل کے تازہ کار شعرا میں زین العابدین راشدؔ صاحب کی شاعری تیزی سے ارتقائی منزلیں طے کرتی جارہی ہے۔شاعری میں پہلے اندازِ میرؔکی پیروی کی مگر عصری حالات کی سنگینیوں نے انہیں جلد ہی حقیقت نگاری کی طرف مائل کردیا۔اس طرح وہ روایت سے درایت تک کے سفر پر چل پڑے ہیں۔اب ان کی شاعری میںزبان وبیان کی ندرت کے ساتھ دورِحاضر کا منظر نامہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اصل نام زین العابدین اور تخلص راشدؔ ہے۔والدِ مرحوم کا اسمِ گرامی جناب محمد اسرائیل ہے۔مٹیا برج(کولکاتا)میں۲؍ اکتوبر۱۹۵۸؁ء کو ولادت ہوئی۔آبائی وطن رمضان پور مونگیر(بہار) ہے۔بی۔اے پاس ہیں۔پیشہ کا علم نہیں ہوسکا۔۱۹۸۶؁ء سے شعری سفر جاری ہے۔شروع میں پروفیسر قیصرشمیم صاحب سے اصلاحیں لیں۔اب تقریباً۲۰؍سال سے حضرت مشتاق جاویدصاحب کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں۔ملک وبیرونِ ملک کے رسائل میںان کی تخلیقات زینت بنتی رہتی ہیں۔ادبی اداروں سے وابستہ ہوکر زبان وادب کی ترویج کے لئے بھی کوشاں ہیں۔افسانہ نگاری سے بھی دلچسپی ہے۔زیرِ نظر غزل ان کی تعمیری فکر کی آئینہ دار ہے۔
رابطہ۔
P-192 رامیشور پور روڈ۔نواب واجد علی سرانی۔کولکاتا۔ 700024  

غزل

حق وباطل پہ جو ہر لمحہ نظر رکھتے ہیں
اپنے اسلاف کی عظمت کی خبر رکھتے ہیں

توڑ سکتا نہیں کوئی ہمیں شیشے کی طرح
ہم جنوں والے تو پتھر کا جگر رکھتے ہیں

شبِ تیرہ میں بھٹکنا ہے مقدر ان کا 
ہم تو آنکھوں میں سدا نورِ سحر رکھتے ہیں

ہم کو مفلس جو سمجھتے ہیں انہیں کیا معلوم 
اپنی مٹھی میں بھی ہم لعل وگہر رکھتے ہیں

آج کے دورِ ترقی کا نتیجہ یہ ہے 
اپنی تحویل میں ہم شمس وقمر رکھتے ہیں

اپنی محنت کا صلہ ہم نے یہی پایا ہے
سر چھپانے کے لئے پھوس کا گھر رکھتے ہیں

جنگ کا جو بھی ہو میدان ہم اس میں راشدؔ
خود کو دشمن سے بچانے کا ہنر رکھتے ہیں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages