زمین بن گئی مقتل تو آسماں میں چلیں
جہاں ہجوم ہو یاروں کا اس جہاں میں چلیں
جہاں پہ قتل کا ساماں ہے اور ظلم و ستم
مکاں سے اوب گئے ہوتو لامکاں میں چلیں
جہاں طواف کو نکلے تھے بے لباس سبھی
قدیم دور کے اس کعبۂ بتاں میں چلیں
تمہاری راہ میں آئیں گی مشکلیں لیکن
نئے سفر پہ کبھی‘ سرمدی اذاں میں چلیں
یہی ہے فیصلہ اپنا رہِ محبت میں
ترے ہی ہاتھ کو تھامیں تری اماں میں چلیں
حسیں بہار کا موسم گزر گیا مسعودؔ
اٹھاؤ بوریا بستر چلو خزاں میں چلیں
No comments:
Post a Comment