لہو غریب کا پیتے ہیں مچھروں کی طرح
لگے ہے جن کا لبادہ قلندروں کی طرح
ہے ہر گھڑی یہاں منظر اسمبلی جیسا
نہیں رہا ہے مرا گھر بھی اب گھروں کی طرح
پڑی ہے جب سے مجھے لت یہ حق شناسی کی
میں چبھ رہا ہوں ہراک دل میں خنجروں کی طرح
مزہ شراب کا آیے گا ہر گھڑی تجھ کو
’’مجھے سمیٹ لے آنکھوں میں منظروں کی طرح‘‘
نہیں رہا ہے ترا دل بھی اب ترا عارفؔ
ہو کیسے وصف کوئی تجھ میں دلبروں کی طرح
ارے رُخ سے نقاب اًٹھاو یہ منافقت کس کے لیے فیضی
ReplyDeleteہم نہیں جانتے کیا تمھے پھر یہ بناوٹ کس کے لیے
شاعرے بدنام
سبھی شاعر مہشور ہوئے بیھٹے ہیں اپنی شاعری پر
ReplyDeleteبلا کوئی شاعر تو بدنام ہو اپنی شاعری پر
چلو یہ حق بھی بدنامی کا ہم ہی آداہ کرتے ہیں
لو آج محبت کو اپنے الفظوں سے ذلیل کرتے ہیں
شاعرے بدنام
بس ایک ہی تمنا ہے
ReplyDeleteلاہور شہار میں دیدارے یار کی
کے اچانک ملاقات ہو اپنے پیار کی
کے پھر وقت وہی تم جائے
دل دھرکنا بھول جائے
بس نگھا ہو روخے یار پر
پھر بلہے یہ جہاں چھوٹ جائے
شاعرے بدنام