Breaking

Post Top Ad

Wednesday, November 28, 2018

عشق نہ جانے جات و پات

ڈاکٹر کلب حسن حزیںؔ

محلہ سکر اول ٹانڈہ ،امبیڈ کر،یوپی
Mob:09838084149

 عشق نہ جانے جات و پات

مادھوری سیتو رام حجام کی بیوی تھی ۔حسن و جمال میں یکتائے روزگار۔ دو بچوں کی ماں ہونے پر بھی وہ اتنی خوبصورت تھی کہ کنواریوں کے کان کاٹتی تھی۔لال ساری اور چولی پہن کر جب نکلتی تو جوانوں کی تو اور ہی بات ہے بوڑھے بھی لمبی سانس لینے لگتے۔آواز ایسی تھی کہ بڑی بڑی گانے والیاں بونی لگتی تھیں۔وہ اعلیٰ خاندانوں کے شادی بیاہ میں گانا گانے جاتی تھی۔جس محفل میں جاتی اس کا رنگ دوبالا ہو جاتا ۔جب بن ٹھن کر نکلتی تو چاروں طرف سیٹیاں بجنے لگتی ‘وہ اپنی آواز کی بدولت دونوں ہاتھوں سے روپے بٹورتی تھی۔ سیتو رام حجام کی دوکان بھی خوب چلتی تھی‘آرام و آسائش سے زندگی گزرتی تھی۔ایک بار جب راجہ برجیندر کمار کے گھر سے گانے کا پیغام آیا تو اس نے قصد کر لیا تھا کہ آج محفل میں قیامت ڈھائے گی۔ایسا ہی ہوا۔ اس کی سریلی آواز سن کر راجہ صاحب خود محفل میں آگئے۔ اتنا خوش ہوئے کہ بیس ہزار روپے انعام دیا۔اب سرکاری اور غیر سرکاری محفلوں میں بھی وہ جانے لگی۔
اب کی چھبیس جنوری کی رات میں رقص و سرود کی محفل کا انعقاد ہوا تھا‘مادھوری کو اس میں بلایا گیا تھا۔اس نے دیش بھگتی کے گیت اتنے دلنشیں انداز میں گائے کہ محفل میں لوگ عش عش کرنے لگے ۔راجہ وجیندر کے چھوٹے فرزند محفل کے مہمان خصوصی تھے‘وہ اس قدر خوش ہوئے کہ مادھوری کو پچاس ہزار روپیہ انعام دیا ۔ اس کے بعد تو وہ مادھوری کے دلدادہ ہو گئے۔ جہاں اس کا پروگرام ہوتا وہ حاضر ہوتے۔
ایک دن سیتو رام حجام ابھی دوکان سے لوٹا تھا کہ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔سیتو رام نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ چھوٹے راجہ صاحب دو سپاہیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ دونوں میاں بیوی متعجب تھے کہ ماجر اکیا ہے ۔راجہ صاحب کو اندر بُلایا ‘سیواستکار کیا ۔جانے لگے تو مادھوری کو پیسہ دینے کے بہانے اس کے ر خسار کو چوم لیا ‘وہ ہکّا بکّا رہ گئی۔
اس دن کے بعد سے راجہ صاحب اکثر آنے لگے ۔جب بھی آتے بچوں کے لئے نفیس لباس لاتے۔ ان لوگوں کے منع کرنے پر بھی ان کی ضد کے آگے بے بس ہوجاتے۔بوس وکنار کے علاوہ بھی اب ان کی ہمت اور آگے بڑھ گئی۔ اکثر لندن اور امریکہ ساتھ جانے کی ضد کرتے۔ سیتورام بے بس تھا ‘بچوں کی دیکھ بھال میں لگا رہتا تھا۔حالانکہ مادھوری راجہ صاحب کے عادات و اطوار سے گھبراتی تھی۔ ایک شام سیتو کے گھر پر جب دستک ہوئی تو مادھوری نے سمجھا چھوٹے صاحب ہوں گے ‘لیکن ان کے بجائے ان کا اردلی تھا۔ اس نے مادھوری سے پوچھا سیتورام ابھی دوکان سے نہیں آئے‘انھیں کچھ کام ہے۔ابھی یہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سیتو رام آگئے ۔اس نے مادھوری کی خوبصورتی اور خوش اخلاقی کا خوب بکھان کیا اور کہا،’’مادھوری کو چھوٹے صاحب بہت پسند کرتے ہیں ‘سیتو تم مادھوری کو چھوڑ دو اور دوسری شادی کر لو‘‘۔ یہ سنتے ہی دونوں پر جیسے بجلی گر گئی۔ 

سیتو بھی کمزور نہیں تھا ‘اردلی سے بھڑ گیا۔اس پر خون سوار ہو گیا ‘اس کا گریباں پکڑ کر باہر ڈھکیل دیا اور کہا۔
’’اب کبھی ادھر قدم نہ رکھنا ورنہ تمھاری حیثیت بگاڑ کر رکھ دوں گا‘‘۔لیکن ایک ہفتہ بعد پھراس پر پوزل کے ساتھ آیا کہ میں تمھارا مکان دوسرا بنوا دوں گا ‘راجہ صاحب سے لاکھ روپے نقددلوادوں گا اور ایک کنواری لڑکی سے تمھاری شادی کروا دوں گا ۔اگر تم سیدھے سے مان گئے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم لوگ مادھوری کو اٹھوا لے جائیں گے۔ سیتو کے جسم میں جیسے خون سوکھ گیا ہو۔وہ تھر تھر کانپ رہا تھا‘کبھی بچوں کو دیکھتا کبھی مادھوری کو ۔اس کی آنکھیں ساون بھادوں بنی ہوئی تھیں۔
آخر کار یہی ہوا جب سیتو دوکان پر تھامادھوری گھر سے اٹھوالی گئی‘ بہت روئی‘ اپنے بچوں کا حوالہ دیا لیکن ان لوگوں نے کوئی بات نہ سنی۔کیا کرتا سیتو رام اکیلا رہ گیا ۔اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں لگا رہتا تھا‘دوکان پر کم ہی جاتا تھا ۔بڑی مصیبت کے دن آگئے تھے۔
اس کا لڑکادھنی رام پڑھنے میں بہت تیز تھا اور ماں کی طرح خوبصورت بھی تھا۔ ہر کلاس میں اول آتا تھا۔بی ایس سی میں ٹاپ کرنے کے بعد ایم ایس سی میں داخلہ لیا ۔اسی درمیان پھول جیسی ایک لڑکی نندنی سے اس کو پیار ہو گیا ‘نندنی بھی اُسے جی جان سے چاہتی تھی۔دھنی رام کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ اپنی ماں کی طرح خوش گلو تھا۔ 
پورے شہر میں اس کی گائکی کی دھوم تھی۔ کالج کے ہر فنکشن میں اس کے چرچے ہوتے تھے۔جب گاتا تھا نندنی اس قدر محو ہو جاتی تھی کہ اُسے اپنی خبر نہیں رہتی۔حسین اتنا تھا کہ کوئی تصور کر نہیں سکتا تھا کہ وہ سیتو رام حجام کا لڑکا ہے۔
دن گزرنے کے ساتھ دھنی رام اور نندنی کا عشق پروان چڑھتا گیا۔   وہ دن 
آگیا جب کالج کے بچے بچے کے لب پر اس کے عشق کی داستان تھی۔دھنی رام تو جانتا تھا کہ نندنی راج گھرانے کی لڑکی ہے۔قصداً وہ آگ میں کود پڑا تھا۔جب نندنی کے عشق کی داستان کوٹھی میں پہنچی‘ راجہ صاحب بہت بر افروختہ ہوئے۔نندنی کی سرزنش کی ‘لیکن نندنی کا عشق تو بلیوں چڑھ کر بول رہا تھا ۔نندنی راجہ صاحب کی اکلوتی لڑکی تھی ‘ جتنی حسین تھی اتنی ہی ضدی بھی۔وہ اپنے پر لگی تمام پابندیوں کو توڑ کر دھنی رام سے ملنے چلی جاتی تھی۔
ایک دن اس نے یہ اعلان کردیا کہ وہ دھنی رام سے ہی شادی کرے گی۔ دھنی رام کا حسب نسب دیکھا جانے لگا۔معلوم ہوا کہ دھنی رام سیتو رام کا لڑکا ہے تو صاف انکار کر دیا ۔میں راجہ بر جیندر سنگھ کا لڑکا ہوں۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک حجام کے لڑکے سے تمھاری شادی کردوں۔نندنی نے تڑ سے جواب دیا
’’اور ایک حجام کی ماں کو بھوگ ولاس کے لئے تصرف میں لاسکتے ہیں‘‘۔راجہ صاحب شرم سے پانی پانی ہو گئے۔
ایک دن راجہ صاحب نے سیتو رام کو بلایا اور کہا ’’اپنے لڑکے سے کہو آگ میں مت کودے ‘‘
سیتو رام بولا’’سرکار میں نے بہت منع کیا‘لیکن وہ ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے‘‘۔
راجہ صاحب نے دھنی رام کو بلایا اور کہا۔’’تم ایک نائی کی اولاد ہو‘ رجواڑے کی ایک لڑکی سے سنبھندھ بنانے کی تم میں کیسے جرأت ہوئی‘‘۔
اس نے کہا۔’’میں شہر کا سب سے خوبصورت ٹاپر ہوں ‘نندنی سے بھی خوبصورت ہوں ‘رہی جرأت کی بات تو جس ہمت سے آپ میری ماں کو ہم لوگوں کو روتا پیٹتا چھوڑ کر اُٹھا لائے تھے ‘اسی ہمت اور جواں مردی کے ساتھ نندنی کو بیاہ کر اپنے گھر لے جاؤں گا‘‘۔
راجہ صاحب نے اسے دھمکایا اور کہا۔’’تم کس سے بات کر رہے ہو‘‘ دھنی رام نے کہا’’ ایک پاپی سے‘‘۔
 راجہ صاحب نے غصہ میں آکر کہا’’نائی کی اولاد تمھاری زبان بہت چلنے لگی ہے ‘میں اسے کھنچواکر اسے اپنے پالتو کتے کو کھلوا دوں گا۔‘‘
اتنا تو کہہ دیا مگردھنی رام کی اکڑ دیکھ کر راجہ صاحب کچھ نرم پڑ ے اور کہا۔
’’ایک حجام کے لڑکے سے اپنی لڑکی کی شادی کر کے میں شہر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔تم پڑھے لکھے ہو‘ خوبصورت ہو‘میں تم کو امریکہ بھیج دوں گا۔وہاں پر ایک بڑی کمپنی کا منیجر بنادوں گا ۔خوبصورت امریکی لڑکی سے تمھاری شادی بھی کرادوں گا‘‘۔ لیکن دھنی رام نہیں مانا۔
راجہ صاحب نے اپنے غنڈے سے اسے بہت پٹوایا۔دوسرے دن  وہ اور نندنی فرار ہو گئے۔راجہ صاحب کے آدمی انھیں شکاری کتے کی طرح ڈھونڈتے رہے ‘لیکن لا حاصل۔ شہر میں شہرت ہو گئی کہ راجہ صاحب کی لڑکی ایک نائی کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔٭٭٭    

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages