زندگی اپنی میں دشوار کروں یا نہ کروں
تجھ کو اے جانِ ادا پیار کروں یا نہ کروں
آج تو سر پہ بٹھاتی ہے ولن کو دنیا
آج ہیرو کا میں کردار کروں یا نہ کروں
سج تو جاؤں گا میں بازار میں بکنے کے لیے
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
رہ چکا پہلے بھی جو راہ زنی میں شامل
قافلے کا اسے سردار کروں یا نہ کروں
میرے کہنے سے کہاں مانوگے شاعر ہوں نفیسؔ
تم کو خطرات سے ہشیار کروں یا نہ کروں
نفیس سیتا پوری
No comments:
Post a Comment