انھیں کو ملتی شہرت سخنوروں کی طرح
جو پیش آتے ہیں خود سے سمندروں کی طرح
ابھی تو دل کا دھڑکنا خموش ہے لیکن
اٹھا نہ دے کوئی طوفاں سمندروں کی طرح
تمہاری بزم تمہارا ہی آئینہ ہوں میں
’’مجھے سمیٹ لے آنکھوں میں منظروں کی طرح‘‘
خلوص اور محبت بھری فضا تو ہے
کھلے ہیں پھول مگر دل میں پتھروں کی طرح
غمِ حیات کے ہیں کیسے ہمسفر راہیؔ
کہ کور چشم بھی دکھتے ہیں رہبروں کی طرح
No comments:
Post a Comment