Breaking

Post Top Ad

Tuesday, October 22, 2019

کتاب ’’سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم ‘‘پر ایک نظر

ڈاکٹر الف انصاری
R-I-24/A,AnsariPalace
P.O:GardenReach.MatiaBurj
Kolakata-700024


کتاب ’’سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم ‘‘پر ایک نظر


زیر نظر کتاب ’’سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم‘‘ ڈاکٹر تسلیم عارف کے تحقیقی مقالے کا ایک حُبز ہے جس کی نوعیت تحقیقی وتجزیاتی ہے جس پر موصوف کو کلکتہ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند تفویض کی ہے چونکہ سجاد ظہیر آپ کے آئڈیل رہے ہیں اور بیحد متاثر بھی ہیںاس لئے آپ نے اپنے تحقیقی مقالے کے لئے سجاد ظہیر کا انتخاب کیا ۔ موصوف نے مذکورہ کتاب میں سجاد ظہیر کی چالیس نثری نظموں کو شامل کیا ہے جبکہ انہوں نے ان چالیس نظموں میں سے بائیس ۲۲؍ نظموں کا انتخاب کرکے ان نظموں پر اختصار سے تبصرہ و تجزیہ پیش کیا ہے جو ان کی بالیدہ فکر کے ثبوت ہیں انہوں نے سجاد ظہیر کی شخصیت اور شاعری کو چند صفات پر سمیٹنے کی اچھی کوشش کی ہے ظاہر ہوا کہ آپ تبصروں کو اختصار سے جامع انداز میں پیش کرنے کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں۔تبصرے میں آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔
سجاد ظہیر کی نثری نظموں کا مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ ۱۹۶۴؁ء میں منصہ شہود پر آیا تھا جس میں صرف ۳۵ نثری نظمیں تھیں جب اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۵؁ء میں پاکستان سے شائع ہوا تو اس وقت’’ پگھلا نیلم‘‘میں مزید تین نظموں اور ایک غزل کا اضافہ کیا گیا تھا۔ جب پروفیسر تسلیم عارف نے ۲۰۱۸؁ء میں اپنا تحقیقی مقالہ’’سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم‘‘ شائع کیا تو اس میں موصوف نے سجاد ظہیر کی مزید ایک غزل اور ایک نظم ’’ویٹنام‘‘ کا اضافہ کرکے اضافی شعری تخلیقات کے ساتھ کتاب اہلِ قلم حضرات کے روبرو پیش کردی۔
سجاد ظہیر کی نثری نظموں کا مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ جب پہلی بار منظرِ عام پر آیا تو سجاد ظہیر کے چند باکمال اہلِ قلم احباب نے ان کی نثری نظموں پرتنقیدیں کیں ۔ادبی رسائل میں بھی بحثیں ہوئیں مختلف حلقوں سے اعتراضات بھی ہوئے معترضین میں ان کے ہمعصر احباب فیض احمد فیضؔ، سردار جعفری اور راہی معصوم رضا کے نام پیش پیش تھے انہوں نے انہیں شاعر ہی تسلیم نہیں کیا ۔ سجا د ظہیر نے ان کے اعتراضات کے جواب میں صرف اتنا کہا تھا کہ جن صاحب کو اس صنف کو نثری نظم تسلیم کرنا گوارا نہیں وہ چاہیں تو اسے نثری شاعری کا نام دے سکتے ہیں۔

سجاد ظہیر کی نثری نظموں کا مجموعہ شائع ہوچکا تھا پھر بھی انہیں شاعر کا درجہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی شاعر تسلیم کیا اور نہ ہی ان کی شاعری پر کسی نے مقالہ لکھا ایک حلقہ نے انہیں نظر انداز کیا حتیٰ کہ جب ساہتیہ اکاڈمی (دہلی) کی جانب سے سجاد ظہیر پر ایک سمینار بعنوان ’’سجاد ظہیر کی ادبی خدمات اور ترقی پسند تحریک‘‘ کا انعقاد ہوا تو اس سیمینار میں  میں ان کی نثری تخلیقات پر مقالات تو پڑھے گئے لیکن سیمینار میں کسی ایک مقالہ نگار نے بھی ان کی شاعری سے متعلق کوئی مقالہ نہیں پڑھا وہاں بھی انہیں نظر انداز کیا گیا بعد ازاں معترضین نے نہ صرف انہیں شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا بلکہ انہوں نے خود بھی نثری نظمیں کہیں۔
مذکورہ تحقیقی مقالہ کا جز ’’سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم‘‘ کی اشاعت کا اولین مقصد محقق کے نزدیک سجاد ظہیر کو ایک شاعر کی حیثیت سے متعارف کرانا ہے۔
تسلیم عارف اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہیں اس کا فیصلہ قارئین اور ناقدین حضرات کریں گے انہوں نے ایک محقق کا فرض ادا کرتے ہوئے سجادظہیر کی شاعری پر مقالہ قلمبند کرکے ان کے شاعرانہ قد کو بلند کرنے کی ایک کوشش کی ہے جو قابلِ تحسین ہے اور حلقۂ شعر وادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ بقول نور ظہیر ’’میرے والد ظہیر نے گیت بھی کہے ہیں اگر صاحب کتاب ان کے گیتوں کو حاصل کرکے کتاب میں شامل کردیتے تو کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی باوجود اس کے انہوں نے مواد کی فراہمی میں کافی عرق ریزی کی ہے۔
جناب تسلیم عارف نے سجاد ظہیر کی جن نثری نظموں کا تجزیہ کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نظموں کا باریک بینی  سے مطالعہ کیا ہے جس سے انکی ذہانت ، بالیدہ نظری، شعر فہمی اور تنقیدی بصیرت کا ادراک ہوتا ہے اس ضمن میں سجادظہیر کی نظم ’’محبت کی موت‘‘ کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیں۔ 
نظم ’’محبت کی موت‘‘   تم نے محبت کو مرتے دیکھا ہے؟چمکتی ہنستی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں/ دل کے دالانوں میں پریشان گرم لوکے/ جھکڑ چلتے ہیں/ گلابی احساس کے بہتے سوتے خشک/ اورلگتا ہے جیسے/ کسی ہری بھری کھیتی پرپالا / پڑجائے !/ لیکن یارب ! / آرزو کے ان مرجھائے سوکھے پھولوں / ان گم شدہ جنتوں سے/ کیسی صندلی/ دل آویز / خوشبوئیں آتی ہیں۔۔۔۔ تسلیم عارف نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
نظم ’’محبت کی موت‘‘ ایک ایسی نظم ہے جو حزن ویاس میں ڈوبی ہوئی ہے جہاں شاعر یاد رفتگاں میں آبدیدہ ضرور ہوتا ہے لیکن اسے ان یادوں میں زندگی کی نئی امیدیں بھی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ زندگی کا یہ المیہ ہے جہاں ناامیدی ہوتی ہے وہیں سے امید کی کونپلیں پھوٹتی ہیں جہاں دکھ ہوتا ہے وہیں سے خوشی کے امکانات روشن ہوتے ہیں اس نظم میں شاعر کی امیدوں کے امکانات بھی اسکی محبت کے کھنڈر سے روشن ہوتے ہیں دراصل یہاں شاعر کا محبوب اس کا وطن ہے جو بظاہر سامراجی قوتوں کے استحصال سے کھوکھلا ہوچکا ہے پھر بھی اس میں زندگی کی نئی رمق کی امید باقی ہے۔
صاحب کتاب تسلیم عارف نے سجاد ظہیر کی مذکورہ نظم کا جس طرح تجزیہ کیا ہے اس کے مطالعہ سے ان کی زبان دانی طرزِ ادا اور زبان و بیان پر دسترس کا احساس ہوتا ہے۔موصوف نے سجاد ظہیر کی زندگی، شخصیت اور ان کی نظموں کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے انہوں نے سجاد ظہیر کی نثری نگار شات اور ان کی شاعرانہ عظمت کا نہ صرف اقرار کیا ہے بلکہ انہیں ایک اعلیٰ پائے کے شاعر کی حیثیت سے بھی متعارف کرانے کی اچھی کوشش کی ہے سلاست زبان، انداز بیان اور زبان پر گرفت کے ساتھ اسلوبِ نگارش بھی دلکش ہے ۔
چند مشاہیر اہلِ قلم حضرات پروفیسر شارب رودولوی، پروفیسر عتیق احمد، پروفیسر فضل امام رضوی، پروفیسر علی احمدفاطمی اور پروفیسر دبیر احمدکے مضامین کی شمولیت سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔پروفیسر تسلیم عارف نے سجا دظہیر کی زندگی، اور فن کے روشن پہلوؤں سے ہمیں آشنا کرایا ہے۔ امید ہے ادبی حلقوں میں کتاب کی پذیرائی ہوگی۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages