پروفیسر قطب سرشار
صدر مرزا غالب اکیڈمی۔ حیدرآباد
غالبؔ کی شاعری: حسی تجربوں کا تخلیقی ارتکاز
Galib Ki Shayeri Hissi Tajarboun k aTakhleeqi Irtikaaz > Prof Qutub Sarshaar |
اردو کے ممتاز نقاد پروفیسر شمیم حنفی اپنی تصنیف ’’نئی شعری روایات‘‘ میں استدلال کرتے ہیں کہ ’’اقبال اک ارض خواب (یوٹوپیا) کے جویا تھے۔ اقبال عظمت آدم کے نغمہ خواں ہیں، ان کی شاعری میں فرد کی ہزیمتوں اور پسپائی کے مظاہر اس کے وجود کی حقیقت کا سراغ لگاتی ہے‘‘۔
اقبال ارض خواب کے جویا نہیں تھے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو ان کی گم شدہ تصویر دکھائی ہے اور باشندگانِ ارض کو ایک صحت مند طرز حیات کے امکانات کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے، تاکہ فرد اور معاشرے کی شکست و ریخت سے نسل انسانی کو نجات مل جائے۔ جبکہ غالب کا لہجہ شعر طنز آمیز تنقید کا مظہر ہے۔ ساتھ ہی معاشرے کے منفی اقدار سے انحراف کا بے باکانہ رویہ بھی انہوں نے کج رویٔ حیات کا مرثیہ رقم کیا ہے۔ وہ اپنے حسی و بصری تجربوں کے حوالوں سے استدلال کرتے ہیں۔
اسلوب غالب کے حوالے سے تمہید کے بعد احوال غالب کو موضوع گفتگو بناتے ہیں۔ غالب نے جہاں جہاں اشعار میں ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ کی تکرار کی ہے ان کے یہاں ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ کا مطلب تعارف ذات و کائنات، انفرادی و اجتماعی کردار نگاری ہے جو کلام غالب پر محیط نظر آتی ہے۔ خود کلامی اردو شاعری خصوصاً غزل کا روایتی وصف رہاہے۔
اہل بینش کو ہے طوفانِ حوادث‘ مکتب۔لطمۂ موج کم از سیلیٔ استاد نہیں
غالبؔ کا استدلال ہے کہ اگر اہل نظر کے حق میں حادثات کے طوفان کے مقابل مکتب فکر ہے تو جان لیں کہ اس طوفان کے تھپیڑے استاد کے تھپیڑوں سے کم نہیں ہوتے۔ لگتا ہے غالب اہل دانش کو طفل مکتب باور کرتے ہیں یا یہ گردانتے ہیں، ہر مکتب فکر سے وابستہ فرد علم کی لامتناہی کائنات کے مقابل کسی طفل مکتب سے زیادہ نہیں ہوتا۔
غالب اشعار کے آئینوں میں بظاہر کہیں گراں خاطر، کہیں جگر سوختہ اور کہیں جگر دار نظر آتے ہیں۔ وہ خوش نوا بھی اور آشفتہ نوا بھی۔ غالب عموماً کرب ناک حسی تجربوں کے مقابل اک جانباز مغل سپاہی کی طرح سخت جاں نظر آتے ہیں۔
تاہم انسان ہونے کے ناطے ٹوٹ کر بکھر جاتے بھی ہیں، پھر معاً خود کو سمیٹنا
بھی جانتے ہیں۔ جب وہ بصری تجربوں کے دوران جاں کاہ منظر کا مشاہدہ
کرتے ہیں، ان کے سینے سے بے ساختہ آہ سرد نکل جاتی ہے۔ اس صورتحال کی تخلیقی ترجمانی اس طرح کرتے ہیں:
ہوں درد مند‘ جبر ہو یا اختیار ہو۔گہہ نالۂ کشیدہ‘ گہہ اشکِ چکیدہ ہوں
غالبؔ کہتے ہیں جبر و اختیار کے مرحلے میں میرا موقف دردمندانہ رہاہے۔ کہیں میرے سینے سے ایک سرد آہ نکل جاتی ہے تو کہیں میرا وجود آنسوئوں کی تراوش کرنے لگتاہے۔ اس شعر میں غم ذات، غم زمانہ کے ساتھ ساتھ چلتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور شعر ہے جو اسی قبیل کا معنوی ذائقہ رکھتا ہے‘ اس طرح ہے:
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن۔از بس کہ تلخیٔ غم ہجراں چشیدہ ہوں
غالب کہتے ہیں محرومیوں کی تلخیاں میرے وجود میں اس درجہ جذب ہوچکی ہیں کہ میں کسی طرح بھی شیریں مقال نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ میں نیم جاں ہوگیا ہوں۔ غالب کا یہ وہ حسی تجربہ ہے جس نے انہیں شکستہ و مایوس کررکھا ہے۔ اس شعر کی معنویت اگر غالب کی ذات سے منسوب کرکے دیکھتے ہیں تو غالب شکستہ کی تصویر ہی ابھر کر آتی ہے۔ ’’میں‘‘ کو اگر استعارہ باور کرلیں تو غم حیات کی گرفت میں انسان کی حسیات، یاسیت کی نفسیات کو فروغ دیتی ہیں۔ اس سبب سے انسان کے مستقبل میں دور تک احساس کمتری کی سیاہی سی پھیل جاتی ہے۔ کہیں کہیں غالب مذہبی نمائندوں کی محدود طرز فکر سے اختلاف بھی کرتے نظر آتے ہیں اور خود کو موحد بھی باور کرواتے ہوئے کہنے لگتے ہیں:
نہیں کہ مجھ کو قیامت پہ اعتقاد نہیں۔شب فراق سے روز جزا زیادہ نہیں
اس شعر میں شب فراق سے مراد غالباً وہ لمحہ امید ہے جو انتہائی طوالت کے باعث عرصہ عذاب لگنے لگتا ہے۔ غالبؔ پھر پہلو بدل کر کہنے لگتے ہیں:
ملنا اگر تیرا نہیں آساں، تو سہل ہے۔دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
طاعت میں تار ہے نہ مئے انگبیں کی لاگ۔دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
کوئی دنیا میں اگر باغ نہیں ہے واعظ۔خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب۔سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
محولہ اشعار متضاد حقائق کے ایسے معنوی تضادات ہیں جن کے باعث غالب کے ایقانات غیر یقینی کے شکار ہوگئے ہیں۔ جنت، فردوس، بہشت جیسی اصطلاحات مفروضات کی ترجمانی نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید نے ان اصطلاحات کے وسیلے
سے کرب و راحت کی سرد گرم محسوساتی دنیائوں کی تعبیرات دی ہیں، جو اعمال خیر و شر کے رد عمل کے معنی دیگر ہیں۔ بقول قرآن:
لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْہَا مَااکْتَسبَتْ (سورۃ البقرہ: 286)
(جس نے جو کمایا اس کو اس کا صلہ بھی ویسا ہی ملے گا)
جنت اور دوزخ دل کو بہلانے کے لئے سبز باغ نہیں ہیں بلکہ خالق کائنات کے انکشافات حق ہیں۔ لگتا ہے غالب کی قرآن فہمی تسامح کا شکار ہوگئی ہے۔ غالب فن شعر گوئی کی کائنات کے شہنشاہ ضرور ہیں، غالب زبان و ادب کا دبستان ہے، امام سخنوراں ہے، غالب کا فکری ماخذ مکروہات حیات اور زوال آمادہ قوموں کا مرثیہ ہے لیکن بقائے انسانیت کے لئے افکار غالب میں کہیں بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ بقائے انسانیت کی افہام و تفہیم کی راہ جو غالب نہ دکھا پائے، وہ اقبال نے بہ درجۂ کمال دکھائی ہے۔ افکار غالب میں رد و قبول کی ایک کشمکش پائی جاتی ہے۔ جبکہ اقبال مردِ مومن کو سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح ابھرتا ہوا اور فاتح زمانہ کی طرح دیکھتے ہیں۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر۔کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
غالب نے ایسے شعر کہے ہیں جو آگہی ذات و کائنات کا مظہر ہیں‘ جیسے:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگ سلماںؑ مرے نزدیک۔اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
ہوتاہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے۔گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
محولہ اشعار کے معنوی تناظر میں اشرف مخلوق کی ایک بلند قامت شبیہ ابھر آتی ہے جس سے قدر آدم کی توضیح ہوتی ہے۔ تاہم جبر و اختیار کے مرحلے میں غالب کہیں کہیں عام انسان کی طرح ضعف جرأت کے سبب مجبور و مظلوم بھی نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں:
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ۔میں معرضِ مثال میں دست بریدہ ہوں
نہ ہی میں تسبیح ڈھال سکتا ہوں نہ ہی جام شراب کو ہاتھوں سے پکڑ پاتا ہوں، میری مثال ایسے فرد کی مانند ہے جس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ اس شعر میں ایک حد درجہ بے بس اور مظلوم انسان کی شبیہہ دیکھی جاسکتی ہے۔ آگے مزید خاکساری و خودداری بھی ملاحظہ کریں:
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لاگ۔نہ دانۂ افتادہ ہوں نہ دام چیدہ ہوں
میری خاکساری پر گمان نہ کریں کہ میں زمین پر پڑا ایسا دانہ ہوں جسے شکاری نے شکار کو پھانسنے کے لئے زمین پر پھیلا رکھا ہے۔ تاہم میں کسی کا دست نگر نہیں ہوں۔ اہل زہد و ورع کی نظروں میں جچتا نہیں ہوں لیکن گنہگاروں کے درمیان میں یقینا برگزیدہ ہوں۔ اس خیال کا ترجمان یہ شعر ہے:
اہل ورع کے حلقہ میں ہر چند ہوں ذلیل۔پر عاصیوں کے فرقے میں‘ میں برگزیدہ ہوں
ہاں اتنا ضرور ہے کہ غالب کے زبان و بیان، لب و لہجہ اور زاویہ ہائے فکر آسان فہم نہ ہونے کے باعث خواص تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ غالب کے شعری اظہار کا عجز نہیں ہے بلکہ ضعف نافہمی ہوسکتی ہے، اس طرح شعر غالب اور فہم عوام کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے:۔
ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ۔میں ہوں کلامِ نغزولے ناشنیدہ ہوں
اخلاقی و معاشرتی اقدار گزشتہ صدی سے تاحال بتدریج اپنی شفاف معنویت کھونے لگی ہیں۔ سماج کا ہر فرد دوسرے فرد کے مقابل اپنے اپنے مفادات کی خاطر نبرد آزما ہوگیا ہے۔ امروز کی درندگی لمحہ فردا تک پھیلنے لگی ہے۔ انسان اپنے ہم جنس سے خوف زدہ ہوگیا ہے۔ دہشت زدگی نے حساس انسانوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ زمانہ غالبؔ یہ صورت حال ہمیں اپنی صدی جیسی لگتی ہے جبکہ وہ انیسویں صدی تھی۔ غالب دہشت زدہ نفسیاتی کیفیت کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ۔ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اس شعر میں دہشت زدگی اور مردم بیزاری جس قدر شدت سے پائی جاتی ہے اتنی ہی شدت کے ساتھ ان کے درونِ ذات کی توانائی بھی ہے۔
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو پیش از یک نفس۔برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم
(دیوان غالب: 93)
دل و دماغ اگر مرعوبیت اور غلامی کے شکار نہ ہوں، ان پر غلبہ حزن و ملال نہیں ہوسکتا وہ اپنے غم کدہ کی شمع کو برق سے روشن کرلیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ حریت افکار اور حریت ضمیر کے حامل وجود پر جب غموں کی دھند چھا جاتی ہے تو وہ برق آسا حوصلوں سے ماتم خانہ کی شمع کو بہ ہرحال روشن رکھتے ہیں۔ مزاج میں جب حسرتوں اور محرومیوں سے محظوظ ہونے کی رغبت پائی جاتی ہو تو تلخی حسرت اور احساسِ شکست آرزو اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔ کھلا کہ ناکامیوں کی خاکستر سے آگہی کی چنگاریاں ابھر آتی ہیں۔
طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کہوں۔آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مجھے
اردو غزل گوئی کے باب میں حجابات استعارہ ایک ناگزیر موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ حجابات استعارہ یعنی استعاروں کے پردوں میں کسی فرد یا شئے یا عمل کو چھپا کر پیش کرنے کا فن کمال تخلیقیت ہوتاہے۔ شعر غالب اس طرح کے کمال عرض ہنر کی توانائی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ استعارہ خالص سریت سے معمور ہوتاہے، حس کی گرہ کشائی بظاہر ذہنی مشقت معلوم ہوتی ہے لیکن اسرار کی کھوج میں دہنی تلذذ بھی مضمر ہوتاہے۔ شاید کہیں کہیں غالب استعارہ کو ابہام بھی باور کرتے ہیں اور اپنی ابہام نگاری پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں:
میرے ابہام پر ہوتی ہے تصدق توضیح۔میرے اجمال پہ کرتی ہے تراوش تفصیل
فکر مری گہر اندوز اشاراتِ کثیر۔کلک میری رقم آموز عباراتِ قلیل
محولہ اشعار سے اجاگر ہونے والے دعویٰ کی دلیل حسب ذیل اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے:
کم نہیں وہ بھی خرابی میں پر وسعت معلوم۔دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد آیا
وحشت کی کیفیت کا ذائقہ دشت اور گھر دونوں جگہوں پر یکساں محسوس ہوتاہے، تاہم دشت کی وحشت گھر سے زیادہ ہے اور تشفی بخش بھی۔ اس شعر میں گھر یعنی درونِ خانہ کے مسائل ہیں۔ اور دشت بیرون خانہ یعنی معاشرتی مسائل۔ دونوں کی معنویت میں یکسانیت کے باوجود معاشرتی مسائل میں وحشت عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ گویا غالب کا حوصلہ مشکلات سے نبرد آزما رہنے میں لذت محسوس کرتاہے۔
وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے۔جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
(دیوان غالب: 106)
ایسا جادو جو سفینے کو سراب میں چلا تودیتا ہے لیکن مدعا طلبی میں بے فیض ثابت ہوتا ہے۔ شعر میں بحر، سحر، سفینہ اور سراب جیسے اجنبی الفاظ نہ سہی اجنبی معنویت کے حامل ضرور ہیں۔
زندگی اور سراب۔ فریب حیات کے استعاروں اور علامتوں کی ایک بازی گہہ حرف و ہنر ہے جو شعری اظہار کو لذت اسرار سے آشنا کرتی ہے۔ استعاروں سے آراستہ چند اور مضامین سے معمور یہ بھی ہیں:
بہ قدر حسرتِ دل چاہیے ذوق معاصی بھی۔بھروں ایک گوشہ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو
کہتے ہیں حسرت دل کے بہ قدر ذوقِ معاصی مناسب ہوتا ہے لیکن میرا دامن تمنا نہایت بے کراں ہے کہ سات دریائوں کا پانی میرے دامن کے صرف ایک گوشہ میں سما جاتا ہے۔ اس مضمون شعر پر غلو کا شائبہ ہوسکتا ہے، جبکہ غالب نے انسانی ہوس کی وسعتوں کا اندازہ کروایا ہے۔ ایک گوشۂ دامن میں ہفت دریا کا سماجانا۔
اسدؔ کی طرح سے میری بغیر از صبح رخساراں۔ہوئی شام جوانی اے دل حسرت نصیب آخر
اس شعر کا موضوع محرومیوں کی کثرت ہے۔ کہتے ہیں اسد کی طرح میری بھی جوانی کی شام ہوگئی لیکن مجھے حسن رخساراں کی صبح نصیب نہ ہوسکی ہے۔ رخساروں کی صبح، جوانی کی شام اور ماحصل حسرت نصیبی جیسے استعاروں کے پردے سے زندگی کے رائیگاں لمحات کی تصویریں ابھر آتی ہیں۔ انسان سدا آرزوئوں کے تعاقب میں دوڑے جاتا ہے اور تمنائیں اسے قعر مذلت میں ڈھکیل دیتی ہیں۔ باوجود اس کے انسان لذت معاصی کے نشے سے باز نہیں آتا۔ ایک جذبہ ایسا جو دورنِ ذات میں چنگاریاں بھر دیتا ہے، ساتھ ہی محرک ہوتا ہے فتنہ طرازیوں کا ہے۔ غالب کہتے ہیں یہ حسد‘ تنگ نظری کا ردعمل ہے، فتنہ طرازی کا محرک ہوجاتا ہے۔
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرم تماشا ہو۔کہ چشم تنگ شاید کثرتِ نظارہ سے وا ہو
غالب حاسد کو ایک حکیمانہ سجھائو دیتے ہیں کہ اگر حسد کے باعث دل افسردہ ہوجاتا ہے تو حاسد کو چاہیے کہ وہ محسود کی کامرانیوں کا متواتر نظارہ کرتا رہے، مبادا کثرتِ نظارہ کے باعث حاسد کی تنگ نظر آنکھ کھل جائے۔ صبر اور انتظار آمیز تماشہ بینی حسد کی آگ کو آگہی میں بدل سکتی ہے۔
کلام غالب کے تمام تر اشعار کمالِ حرف و ہنر، اجنبی و نادر اصطلاحات مضامین خوش اعتبار کا ایک دلچسپ اور تحیر خیز ارتکاز ہے۔ زاویہ ہائے اظہار اس قدر مشکل کہ قاری کے ذوق تحقیق کو مہمیز کرتا ہے۔ غالب نے اردو دنیا میں نادر اظہار بیان، بے شمار لفظیات کا اک دفتر کھول نہیں رکھا بلکہ مکتب کھول رکھا ہے اور ہم طفل مکتب گزشتہ ایک صدی سے اکتساب غالب کیے جارہے ہیں، تاکہ اعتبار تخلیقیت اور بقائے زبان و ادب کے امکانات یقینی ہوتے رہیں۔ غالب کو قلق اس بات کا ہے کہ بیشتر شعراء میں حرف و ہنر کا عجز اور تخلیقیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس خیال کی ترجمانی یہ شعر کرتا ہے:
نہ انشا معنی مضموں‘ نہ املا صورتِ موزوں۔
عنایت نامہائے اہلِ دنیا ہرزہ عنواں ہیں
No comments:
Post a Comment