Breaking

Post Top Ad

Thursday, February 15, 2018

غزل و تبصرہ

انٹرویو ایونٹ 2018 ادبی کہکشاں

غزل
شاعر.... اصغر شمیم

زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مقابل میں دھواں رکھا ہوا ہے

مرے اجداد کی ہے وہ نشانی
جو گاؤں میں مکاں رکھا ہوا ہے

مری ناکام حسرت کا جنازہ
نہ جانے وہ کہاں رکھا ہوا ہے

بروئے کار لاؤں حوصلوں کو
مرے آگے جہاں رکھا ہوا ہے

چلو کشتی کو دریا میں اتاریں
کہ سر پر بادباں رکھا ہوا ہے

تمناؤں کا جو مسکن تھا اصغر
وہ میرا دل کہاں رکھا ہوا ہے

*اصغر شمیم*

(مبصر..... انعام عازمی)
اصغر شمیم صاحب جتنی عمدہ غزلیں کہتے ہیں اس حساب سے یہ غزل بہت کمزور ہے...مطلع تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہے...دوسرے شعر میں بس قافیہ پیمائی ہے...تیسرے شعر میں جنازہ کہاں رکھا ہوا ہے؟؟؟ جنازہ سے کیا کرنا ہے؟ اسے دفن کرنا ہے یا اس کی نماز پڑھانی ہے؟؟  ویسے  دوسرے مصرع کے *وہ* کو *اب* میں تبدیل کر لینے سے ہو سکتا ہے لوگوں کو شعر پڑھنے میں اچھا لگے لیکن شعر میں logic کوئی نہیں ہے...باقی اشعار اچھے ہیں...عجلت میں مکمل کی گئی غزل ہے

(ادیب علیمی)
میرے خیال سے اگر میں لکھوں بھی تو اس تبصرے کو ہر شعر پر تقسیم ہی کروں گا بس.....! اور کچھ نہیں.....! لہذا مبصر کی ستائش پر اکتفا کرنا اعادے کی دقت سے بچنا بھی ہے اور حقِ اولیتِ تبصرہ کا اعتراف بھی!

(مبصر عامر نظر)
اصغر شمیم صاحب کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ آسان لفظوں میں گہری بات کہہ جاتے ہیں
کون ہوں میں نام کیا ہے کچھ پتہ مجھکو نہیں
در بدر کرتی رہی یہ چاک دامانی مجھے

۱۹۸۸ سے آپ شاعری کر رہے ہیں میں اب تک سمجھتا تھا کہ آپکی عمر پچیس چھبّیس سال ہے اور آپ ہم جیسوں کی طرح کنوارے ہیں، ادبی کہکشاں کا شکر گزار ہوں ان کے توسط سے یہ سب جان سکا

(مبصرہ فریدہ نثار)
کلکتہ کے شاعر و افسانہ نگار سے ایک ملاقات بہت خوب رہی۔
اکثر فیس بک پر ان کی تخلیقات و تبصرے نظر نواز ہوئے ۔۔انہماک میں مائیکروفکشن میں بھی طاق اور غزلیں بھی اپنی مثاک آپ۔
بھائ ۔۔کبھی کبھار واقعات ہی تو کارنامہ بن جاتے ہیں۔
غزل۔۔مطلع تا مقطع مرصع۔بہت عمدہ۔
سوچ میں گم صم کھڑا ہوں کچھ سمجھ آتا نہیں
" عشق لافانی ملا ہے زندگی فانی مجھے "
مصرعہ طرح کو خوب گرہ لگائی ۔

واہ۔۔کیا کہنے۔۔کہ ناول لکھنا چاہتے ہیں۔
ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔
ماشاء الله ۔۔الحمد لله ۔۔اللہ تعالی آپ کے گھرانے پر رحمتوں کی بارش برسائے۔ آمین۔
یہ جان کر انتہائی مسرت ہوئی کہ بھابی جان اور بچوں کو آپ کے بیشتر اشعار یاد ہے۔آج کے اس دورنگی ماحول میں اشعار یاد کرنا تو کجا اشعار سننے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔
متعدد اخبارات و جرائد میں تحاریر کی اشاعت پر دلی مبارکباد ۔۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
چلئے ایک اور مقام خوشی کہ زبان اردو کا مستقبل تابناک ہے۔
ہم سبھی دل کی گہرائیوں سے یہی چاہتے ہیں۔

کیا کہنے کہ
وقت اچھا بھی آئے گا اپنا
( سچ کہا اچھے دن آنے والے ہیں)
غزل و مائیکروفک تحریر کرنے والے اختصار سے کام لیتے ہیں اور سمندر کو کوزے میں رکھنے کا گر جانتے ہیں وہی اصغر شمیم بھائ نے کیا۔
انٹرویو بہت عمدہ۔

اور غزل بھی کیا کہنے کہ
مرے اجداد کی ہے نشانی
جو گاؤں میں مکاں رکھا ہوا ہے
دل میں اترنے والا شعر۔

واہ اور عزم مصمم کو صدا دیتے ہوئے فرماتے ہیں
بروئے کار لاؤں حوصلوں کو
مرے آگے جہاں رکھا ہوا ہے
بہت خوب۔
مقطع بھی خوب
تمناؤں کا جو مسکن تھا اصغر
وہ میرا دل کہاں رکھا ہوا ہے
کیا ہی معصومانہ سوال
بہت خووووب۔
بہت بہت مبارکباد ساتھ نیک تمنائیں ۔

(مبصر افتخار راغب)
*غزل : اصغرشمیم*
*گفتگو: افتخار راغب*

زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مقابل میں دھواں رکھا ہوا ہے
★★★ آسماں سے دھواں کی تشبیہ قابلِ تعریف ہے لیکن ردیف "رکھا ہوا ہے" ایک بامعنی اور عمدہ مطلع ہونے میں مانع ہو گئی ہے. اگر اس کی جگہ "دیکھا گیا ہے" ہوتا تو بہت معنی خیز اور دلکش ہوتا. موجودہ صورت میں نہ آسماں رکھی جانے والی چیز ہے نہ دھواں. اس میں "رکھا ہوا" حشو ہے "آسماں ہے" یا "دھواں ہے" کہنا کافی تھا.

مرے اجداد کی ہے وہ نشانی
جو گاؤں میں مکاں رکھا ہوا ہے
★★★ پہلا مصرع خوب ہے. دوسرے میں "گاؤں" کو فعلن کے وزن پر پڑھ کر طبیعت مکدر ہو گئی. اس طرح کا چلن ایک خاص علاقے میں زیادہ ہے بلکہ فیشن بن چکا ہے جو اہلِ زبان اور ہندی زبان میں رائج اس کے تلفظ سے یا تو نابلد ہیں یا قصداً زبان کے ساتھ یہ مزاق کرتے ہیں. گاؤں، جس کا درست املا گانو ہے (غالب نے بھی گانو پانو لکھنے کو ترجیح دی ہے اور جدید املا میں بھی اسے بہتر مانا گیا ہے)، کو واحد کی صورت میں فعلن کے وزن پر باندھنا درست نہیں ہے اسے ہر حال میں فعل کے وزن پر باندھا جانا چاہیے. اگر جمع کے طور پر باندھا جائے تو ٹھیک ہے مثلا یہ کہا جائے کہ اس علاقے کے گاؤں میں تعلیم کی معقول سہولت نہیں ہے. گانا سے اگر کہا جائے کہ کیا میں گانا گاؤں؟ تو یہاں بھی فعلن کے وزن پر درست ہے. لیکن گانو یا گاؤں (गाँव) واحد کی حالت میں ہمیشہ فعل کے وزن پر باندھا جانا چاہیے. چوں کہ شعر میں واحد کے طور پر باندھا گیا ہے اس لیے اسے درست نہیں مانا جا سکتا. اس اعتبار سے مصرع بے وزن ہو جائے گا.

مری ناکام حسرت کا جنازہ
نہ جانے وہ کہاں رکھا ہوا ہے
★★★ پہلا مصرع عمدہ ہے دوسرے مصرع میں ایک دو حرفی لفظ "وہ" نے شعر کا جنازہ نکال دیا ہے. اس کی جگہ "اب" ہوتا تو اچھا شعر ہوتا.

بروئے کار لاؤں حوصلوں کو
مرے آگے جہاں رکھا ہوا ہے
★★★ بہت عمدہ شعر ہے. حوصلہ کو بروئے کار لانے کا عزم اور سامنے جہاں کو فتح کرنے کے ارادے نے شعر کو بہت دلکش بنا دیا ہے.

چلو کشتی کو دریا میں اتاریں
کہ سر پر بادباں رکھا ہوا ہے
★★★ پہلا مصرع بے ساختہ ہے لیکن دوسرے میں سر پر بادباں رکھا ہونے سے کس بات کی طرف اشارہ ہے واضح نہیں ہو سکا ہے.

تمناؤں کا جو مسکن تھا اصغر
وہ میرا دل کہاں رکھا ہوا ہے
★★★ مقطع کام چلاؤ ہے. یہاں بھی پہلا مصرع بلا کی شعریت کا حامل ہے لیکن دوسرے میں ردیف پوری طرح نہیں نبہہ سکی ہے. دل رکھنا محاورہ الگ معنی میں استعمال ہوتا ہے. دوسرے مصرع میں شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ وہ میرا دل کہاں کھو گیا ہے غائب ہو گیا ہے لیکن یہ بات ہو نہیں پائی ہے.
مجموعی طور پر ردیف کو نبھانے کی اچھی کوشش ہوئی ہے پہلا مصرع بیشتر اشعار کے خوب ہیں لیکن دوسرے میں ردیف نے مشکل کھڑی کر دی ہے جس کی وجہ سے کئی اشعار پُر اثر نہیں ہو سکے ہیں. بہر حال مشکل زمین میں ایک اچھی کوشش کے لیے اصغر شمیم صاحب کو داد اور مبارکباد پیش کرتا ہوں.

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages