Breaking

Post Top Ad

Sunday, October 14, 2018

غزل

رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا
شہر کی آبادیوں میں اپنے جیسا میں ہی تھا

میں ہی دریا میں ہی طوفاں میں ہی تھا ہر موج بھی
میں ہی خود کو پی گیا صدیوں سے پیاسا میں ہی تھا

کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا

کتنے جذبوں کی نرالی خوشبوئیں تھیں میرے پاس
کوئی ان کا چاہنے والا نہیں تھا میں ہی تھا

دور ہی سے چاہنے والے ملے ہر موڑ پر
فاصلے سارے مٹانے کو تڑپنا میں ہی تھا

میری آہٹ سننے والا دل نہ تھا دنیا کے پاس
راستے میں اشکؔ بے مقصد جو بھٹکا میں ہی تھا

ابراہیم اشک

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages