کتاب کا نام۔
اردو نظم کا ارتقائی سفر(تنقیدی مضامین)
مصنف۔سیفی سرونجی
مبصر۔عبد المتین جامیؔ
زیر نظر کتاب مشہور صحافی و نقاد سیفی سرونجی کے تذکروں پر مبنی مضامین کا مجموعہ ہے۔موصوف نے ہندوستان کی ۱۲؍ ریاستوں کی چند ادبی شخصیتوں کی شاعری نیز نظموں پر ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے ۔سیفی سرونجی صاحب کی زندگی بہت بڑے بڑے امتحانات کے درمیان گزری۔کتاب کے دیباچے کو لکھتے ہوئے شارق عدیل نے کہا ہے’’اپنے بچپن میں ایک بیڑی بنانے والے کاریگر بطور گزرا۔ لیکن بعد ازاں خود اپنی محنت و جان توڑ مشقت کے نتیجے میں ڈاکٹر سیفی سرونجی کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج یہی ایک پہچان اُن کو عالم گیر شخصیت کے مالک کے بطور سامنے لے آئی ہے۔ انھوں نے بعد ازاں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ہندوستان میں بہت ساری ایسی شخصیات ہیں جن کو بہت ہی بڑے بڑے امتحانات سے گزر کر دنیا میں اپنامقام بنانا پڑا ۔ہماری شاعری اور ادبی دنیا میں بہت سارے ایسے مشہور نام ہیں جن کو چھوٹے سے چھوٹا کام کر کے زندگی بسر کرنی پڑی ۔ لیکن بعد ازاں وہ ایک سے ایک آئی کان ہو کر نکلے۔ بہر حال انھیں نامور ادبی ہستیوں میں سیفی سرونجی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ سہہ ماہی ’’انتساب ا‘‘کے مدیر ایک شاعر اور محقق اور ایک نقاد کی حیثیت سے اردو دنیا کے بڑے ناموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
اس صدی میں ہندوستان میں نظم کے حوالے سے جانے پہچانے چند ہی نام سامنے آتے ہیں۔زیر نظر کتاب ’’اردو نظم کا ارتقائی سفر‘‘جدید اردو نظم کہنے والوں کا ایک تذکرہ ہے۔ بقول شارق عدیل ڈاکٹر سیفی سرونجی کی یہ کتاب نظم کے حوالے سے خاص معلوماتی ہے اور ریسرچ اسکالروں کے کام کی چیز ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے اسکالر اگر نظم کے حوالے تحقیق کرنے لگیں تو اور بھی بہت سے نظم گو شعرا پر روشنی ڈالنے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ان کے تحقیقات میں اردو نظم کا ارتقائی سفر کا ذکر بھی ضرورشامل ہوگا۔
سیفی سرونجی نے اپنی کتاب میں مدھیہ پردیش،مہاراشٹر،کشمیر،راجستھان،اتر پردیش۔مغربی بنگال، دہلی،آندھرا پردیش‘کرناٹک، اڑیسہ،تمل ناڈو اور پنجاب کے نظم گو شعرا کا قدرے مختصر جائزہ لیا ہے ۔ناچیز کو یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ سیفی صاحب نے اپنے تذکروں کے درمیان اڑیسہ کو بھی شامل کیا ہے۔
لیکن نہ جانے کیوں راقم الحروف کو ہی نظر انداز کردیاجس کی نظموں کا ایک مجموعہ’’ محبوس نغمے ‘‘کے نام سے زیر طبع ہے۔ہندوستان کے کئی ادبی رسائل میں برسوں قبل بلکہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں شائع ہوچکی ہیں۔بہر کیف کسی بھی مصنف کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہے اپنے تذکرے میں شامل کرے نہ کرے۔ تاہم تذکرے یا تحقیقات کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ بہر کیف اس کتاب میں سیفی صاحب نے جتنے شعرا و ادبا کا ذکر کیا ہے بہت ہی اچھی طرح کیا ہے۔جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اردو دنیا کو ان سے مزید ادبی خدمات کی اُمید وابستہ ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔امید ہے کہ اردو کے سنجیدہ قارئین اس کتاب سے کافی استفادہ کریں گے۔اس کتاب کی صفحات 280؍ ہیں اور قیمت 200؍ روپے ہے اور ملنے کا پتہ ہے سیفی لائبریری سرونج(ایم۔پی)
Mob:09452641777
No comments:
Post a Comment