Breaking

Post Top Ad

Monday, January 7, 2019

لہو پکارے گا

لہو پکارے گا آستیں کا
ریاض خیہرآبادی امیر مینائ کے محبوب شاگرد تھے ۔ ایک دفعہ رامپور آۓ اور استاد کے مہمان ہوۓ ۔ کسی صحبت میں کسی نے ناسخ کا شعر پڑھا
یہ ساعدوں کا ہے اس کےعالم کہ جس نے دیکھا ہوا وہ بیدم
نیامِ تیغِ قضاۓ مبرم لقب ہے قاتل کی آستیں کا        ناسخؔ
سب نے پسند کیا ۔ جلالؔ نے کہا آستیں کا قافیہ اس زمیں میں اس سے بہتر کوئ نہیں باندھ سکتا ۔ ریاضؔ کے شدید اصرار پر امیر نے اس زمین میں غزل کہی مگر چونکہ وہ قدما کا بہت احترام٭ کرتے تھے آستین کا قافیہ غزل میں نہیں رکھا ۔ ریاض کے اسرار نے اور شدت اختیار کی ۔ جب امیرؔ نے یہ شعر پڑھا
قریب ہے یارروزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
ریاض اچھل پڑے اور امیر کے قدم،وں پر ہاتھ رکھ کر خوب روۓ ، ایسی استادی شاگردی اب کہاں !
-------------------------------------
امیر مینائ کی اس غزل میں بائیس اشعار ہیں کچھ منتخب اشعار پیش ہیں 
یہی سودا ہے تجھ حزیں کا پتا کہاں کوۓ نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
یہ طرزِ وحشت نے رنگ باندھا کہ ہوگیا دو جہاں کو سودا
زمیں پہ جادہ فلک پہ جوزا نشاں ہے چاک آستیں کا
ذرا جو کاتب کو رحم آتا تو بخت بنیاد ہی مٹاتا
درست لکھتا تو ٹوٹ جاتا قلم ہمارے خطِ جبیں کا
چمن ہے بلبل کے خوں کا محضر گواہ ہیں برگ و بر سراسر
نہیں ہے یہ داغ لالۂ تر یہ نقش ہےمہر کی نگیں کا
یہ جتنے پتلےہیں ماوطیں کے نہ آسماں کے نہ ہیں زمیں کے
نشاں تک مٹ گۓ جبیں کے کھلا نہ مطلب خط جبیں کا
غم محبت ہے جس کامطلب کدورت اس دل کی ہو عیاں کب
کہ ہے مے جب تک ہے خم لبالب پتا کہاں درد تہہ نشیں کا
کیا تھا کیوں ادعاۓ باطل ہوا تھا اس تل سے کیوں مقابل
سزا ملی  ہوگیا سیہ دل جو مشک نافہ غزالِ چیں کا
بڑھے سلیمان کے جتنے رتبہ تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے بلند ہو نام اس نگیں کا
کہاں کا نالہ کہاں کا شیون ثناۓ قاتل ہے وقتَ مردن
قلم ہوئ ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا
قریب ہے یارروزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
عجب مرقع ہے باغ دنیا کہ جس کا صانع نہیں ہویدا
ہزار ہا صورتیں ہیں پیدا پتا نہیں صورت آفریں کا
جنوں کا ہم پر ہے قطع جامہ قبا کہاں کی لباس کیسا
ہمارے بازو تلک نہ پہنچا کسی طرح ہاتھ آستیں کا
امیر گھڑیوں رہی خموشی گلے سے آواز تلک نہ نکلی
خیال جس رات خواب میں بھی بندھا کسی چشمِ سرمگیں کا
امیر مینائ کی ایک اور غزل جو اسی زمین میں ہے جو الیس اشعار پر مشتمل ہے ۔ اس کے بھی چند منتخب اشعار پیش ہیں
ہوا جو پیوند میں زمیں کا تو دل ہوا شاد مجھ حزیں کا
بس اب ارادہ نہیں کہیں کا کہ رہنے والا ہوں میں یہیں کا
اگرچہ پیری میں ناتواں ہیں شباب کے کچھ اثر عیاں ہیں نہیں یہ بازو میں جھریاں ہیں نشان ہے چین آستیں کا
کہیں مکرر زباں سے کتنا کوئ مخاطب نہیں ہے اصلا
ہمارا اظہارِ غم ہے گویا سوال درویشِ رہ نشیں کا
کھلے ہیں یہ استخواں پیکر کہ پوست ہی پوست ہے سراسر
کلاہ کا شک میرے سر پر گماں ہے میرے بازو پر آستیں کا
سفر مبارک ہو آخرت کا بخیر انجام ہو خدایا
جو گھر سے نکلے میرا جنازہ تو سامنا ہو کسی حسیں کا
جو شعلہ بالاۓ طور چمکا جھپک گئ جس سے چشمِ موسٰے
بجھا ہوا تھا کوئ شرارہ تمہارے رخسارِ آتشیں کا
لحد پہ میرے نہ آۓ کہدو کوئ یہ دزدِ کفن سے یارو
برہنہ دیکھے نہ گور مجھکو میں کشتہ ہوں چشمِ سرمگیں کا
جو تیغِ ساعد ہوئ مقابل تڑپ گئ خلق مثلِ بسمل
الٹ گئ صف جو تونے قاتل الٹ دیا گوشہ آستیں کا
امیر دیکھا جو اس کا نقشہ تو نقشہ یوسف کا دل سے اترا
کہ نقشِ فانی کے آگے ہوتا فروغ کیا نقشِ اولیں کا
------------------
آستیں کا قافیہ سید امراؤ مرزا انور دہلوی نے بھی خوب باندھا ہے
نہ لب پہ ہوذکرمہروکیں کا نہ دیکھے اک اشک منہہ زمیں کا
وہ ضبط ہو عاشقِ حزیں کا یہ ربط ہو چشم و آستیں کا
وہ ناتوانی سے بے نشاں ہوں کہ لاکھ ڈھونڈو مگر کہاں ہوں
یہ دیکھنے میں جو کچھ عیاں ہوں طلسم ہے جیب و آستیں کا
-------------------
  آستیں قافیہ اوروں نے بھی باندھا ہے
رہے ہیں گھل مل کے کیسے دونوں یہ ایک ہیں دل کے کیسے دونوں
چھٹا جو ہم سے کسی کا دامن تو ساتھ ہے اشک و آستیں کا
ریاضؔ خیرآبادی
یہ لاغری اب ہے خار دامن کہ اٹھ نہیں سکتا بار دامن
جو پاؤں اپنا ہے تار دامن تو ہاتھ ہے تار آستیں کا
قدر بلگرامی
نہ بحر جاری سحاب سے ہے نہ چاہ لبریز آب سے ہے
وہ دامن تر کا اک لقب ہے یہ نام ہے میری آستیں کا
جلیلؔ مانک پوری
شہید ہونے کی یہ تمنا نہ دل سے نکلے گی دیکھ لینا
اٹھائے خنجر وہ ہاتھ میں کیا نہ یار سنبھلے جب آستیں کا
قربان علی سالک بیگ
  
ماخذ
گل و گوہر    احترام الدین شاغلؔ
مراۃ الغیب       امیر مینائ

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages