Breaking

Post Top Ad

Tuesday, May 19, 2020

گفتار کا غازی بن تو گیا۔۔۔ Guftar Ka Ghazi Tu Ban Gaya

عبدالمتین جامیؔ

موبائل۔

                   گفتار کا غازی بن تو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔    

علامہ اقبالؔ کے ایک شعر کا یہ مصرع خود ان کے زمانے میں مقبول ہوچکا تھااور اس کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔اس کی تشریح کرنے بیٹھیںتو ایک ضخیم کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے لیکن اس کے حوالے سے مختصراً چند باتیںاہلِ اردو سے یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو میںمشاعروں کی روایت ابتدا سے چلی آرہی ہے اور اس کی مقبولیت میں فی زمانہ اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔مگر آج کے کمرشیل مشاعرے ہمارے لئے مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا ۔اس سلسلے میں پچاسوں سنجیدہ قلمکار کتنے ہی صفحات سیاہ کر چکے ہیں ۔میرا اصل موضوع ہے کتاب۔۔۔۔ کتابیں سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ کتابوں کے ناشر خودشاعر،فکشن نگار، نقاد یا مترجم ہوتے ہیں۔ ان کے تقسیم کار بھی وہی ہوتے ہیں۔ اپنی کتاب شائع کرکے نذرِ قارئین بھی خود ہی کرتے ہیں۔لیکن ان کو ملتا کیا ہے؟ چند مہربان قارئین کی جانب سے خوش خبری ملتی ہے کہ انھیں کتاب مل چکی ہے۔وہ بھی فون پر ساتھ ساتھ بتا دیتے ہیں اور زیادہ تر قارئین کی جانب سے فون پر بھی خبر نہیں ملتی کہ انہیں کتاب مل گئی ہے۔خط و کتابت نیز آراء کجا؟لیکن تخلیق کار کا قلم اپنے عمل میں مصروف رہتا ہے۔یہ ہے اردو زبان کی بقاء کا دعویٰ کرنے والے اردو ہی کے پروفیسر وں،ریڈروں اور لیکچرروں جیسے قارئین کا برتاؤ۔ جو اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں لیکن اردو کے نام پر ایک پیسہ خرچ کرنے کے روادار نہیں۔
گفتار کا غازی بن تو گیا۔۔۔ Guftar Ka Ghazi Tu Ban Gaya
گفتار کا غازی بن تو گیا۔۔۔ Guftar Ka Ghazi Tu Ban Gaya
اب آئیے دیگر زبانوں کی جانب بھی دیکھیں ،وہاں مطالعہ کرنے کا شوق رکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ایک ایک کتاب کے بیسوں اڈیشن شائع ہوجاتے ہیں۔ہمارے اڈیشا میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔اپنی زبان میں چھپی کتاب کو دیکھ کر قاری خوش ہوتا ہے اور فوراً خریدلیتا ہے۔
اس کے برعکس اردو والوں کی سردمہری قابلِ افسوس ہے۔بڑے ادیب وشاعر اور پروفیسر حضرات اعزازی کاپی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اس لئے کتابیں یا رسائل خریدنا ان کے لئے کسرِ شان کے مصداق ہے۔آج کے ماس میڈیا کے اس دور میں قارئین کی تعداد بھی گھٹنے لگی ہے۔ایسے میں جو اردو اخبار یا رسالہ شائع کرتے ہیں ان کے درد کو سمجھنے والے کتنے ہیں۔زبان کی بقا اور ملت کی بقا ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔اس لئے کہا گیا ہے کہ اگر کسی قوم کو ختم کرنا چاہو تو پہلے اس کی زبان کو ختم کردو۔اس تناظر میںاپنے قارئین سے یہی گزارش کروں گا کہ وہ اپنی زبان کی اہمیت کو سمجھیں اور اردو کی بقا کے لئے اردو اخبار ات ورسائل خرید کر پڑھیں۔صرف دعویٰ کرکے گفتار کے غازی نہ بنیں۔
آخر میں اپنے رسالے’’ادبی محاذ‘‘ کے تعلق سے یہ بتاناچاہوں گا کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے یہ مسلسل پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ہندوستان بھر میں اس کے قارئین موجود ہیں۔لیکن ان میں سے بیشتر یاد دہانی کے باوجود تجدیدِ خریداری نہیں کرتے ہیں۔جن کی میعادِ خریداری ختم ہوجاتی ہے تو ان کے پتے کے نیچے تجدیدِ خریداری کی گزارش درج کردی جاتی ہے۔اس کے باوجود بیشتر قارئین اس گزارش کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ اس طرح رسالہ گھاٹے میں چل رہا ہے۔یہ ہمارے چند کرم فرماؤں کا احسان ہے جن کا مالی تعاون’’ادبی محاذ‘‘ کی بقا کا ضامن بنا ہوا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے درد کو سمجھتے ہوئے قارئین وقت پر تجدیدِ خریداری کرکے اس رسالے کو استحکام بخشیں گے۔
٭٭٭  


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages