Breaking

Post Top Ad

Thursday, October 24, 2019

یاسین راہیؔ اپنی غزلوں کے آئینہ میں


                                                                                                 

سعید رحمانی
مدیر اعلیٰ ادبی محاذ۔دیوان بازار۔ کٹک(اڑیسہ)

یاسین راہیؔ اپنی غزلوں کے آئینہ میں

عصرِ حاضر کے شعری منظر نامہ میں یاسین راہیؔ جدید لب ولہجہ کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری غمِ ذات کے ساتھ غمِ روزگار کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔موصوف کا تعلق بلگام(کرناٹک ) سے ہے جہاںکی مقامی درس گاہ اسلامیہ پِری یونیورسٹی کالج کیمپ میں بحیثیت وائس پرنسپل فائز ہیں۔درس و تدریس جیسے معزز پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ شعروادب کا بھی رچا بسا ذوق رکھتے ہیں۔ان کا شعری سفر گرچہ زیادہ طویل نہیں ہے تا ہم اس دوران ان کا ایک شعری مجموعہ ’’قطرہ قطرہ دریا دیکھوں‘‘ منظر عام پر آکر اہل ادب سے پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔اس کی اشاعت ۲۰۱۴ء؁ میں ہوئی تھی اور کرناٹک اردو اکاڈمی اس کے لیے انھیں انعامات و اعزازات سے بھی نواز چکی ہے۔ اس اولین مجموعے کی پذیرائی سے حوصلہ پاکر اب وہ اپنا دوسرا مجموعہ ’’حرف حرف معتبر‘‘ شائع کرنے والے ہیں۔ اس مجموعے کی ابتدا حسب روایت نعت ِپاک سے ہوئی ہے پھر اس کے بعد غزلیں ہی غزلیں ہیں۔
یاسین راہیؔ کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ غزل کے مزاج داں ہیں اور روایت کے ذریعہ درایت تک پہنچنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری جہاں روایت کی صالح قدروں پر استوار ہے وہیں اس میں عہد حاضر کے تپتے ہوئے صحرا کی تمازت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ان کی شاعری کی دوسری اہم خصوصیت سلاستِ زبان وبیان ہے۔الفاظ کے موزوں دروبست سے ان غزلوں میں شگفتگی‘طرفگی و سلاست کے ساتھ ساتھ بھر پور عنائیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔کہیں راست بیانیہ تو کہیں رمزیت وایمائیت سے کام لے کر انھوں نے اپنے بیشتر اشعارمیں گہرائی و گیرائی بھی پیدا کی ہے۔
دیکھا جائے تو ان کی غزلوں کا کینوس بے حد وسیع ہے۔متنوع موضوعات کی رنگا رنگی نے ان غزلوںمیں قوس قزحی کیفیت پیدا کردی ہے جوقاری کے لیے یقینا سرور بخش اور باعثِ طمانیت ہے۔سب سے پہلے ان کے جمالیاتی اشعار پر نظرڈالتے ہیں۔انسان میں حسِ جمالیات ایک فطری امر ہے جس سے کوئی بھی آدمی مبرا نہیں۔ پھر شاعر ہو تو اس میں جمالیاتِ کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔
ہر شب یہی تو سلسلہ ہے
تمھاری یاد ہے اور رتجگا ہے 
ترے دیدار کو میں آنکھ موندوں 
یہی ہر روز میرا مشغلہ ہے
چہرے پہ نظر آپ کی پڑتے ہی اچانک
پھولوں کی طرح کھل اُٹھی بیمار کی صورت
بطور نمونہ یہ چند شعر پیش ہیں لیکن اس نوعیت کے اور بھی اشعار مجموعے میں جا بجا نظر آتے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ جمالیات کے شعر ی اظہارمیں کہیں بھی ابتذال کا گمان نہیں ہوتا بلکہ ان کا عشق مجازی عشقِ حقیقی کا زینہ طے کرتا نظر آتاہے۔
بہر حال وہ جمالیات کی شبنمی فضا سے نکل کر جب اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو عصری مسائل کی تمازت انھیں مضطرب کر دیتی ہے۔معاشرتی‘ اخلاقی‘ و سماجی اور سیاسی سطح پر در آئی نا ہمواریوں کو جزوِ شاعری بنا کر نوکِ قلم سے نشتر کا کام لیتے ہیں۔سیاسی داؤ پیج ‘عدعلیہ کا کردار اور اخلاقی گراوٹ جیسے موضوعات پر ان کے خیالات نوکِ خامہ سے ڈھل کر صفحہ قرطاس پر نقش ہونے لگتے ہیں۔مثلاً
ملک میں آج ہم غریبوں کو
نوٹ بندی کا جال لے ڈوبا
جھوٹ جن کا رواج ہوتا ہے
سچ میں ان کا ہی راج ہوتا ہے
تمھارے ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھا
کبھی ہمارے حق میںتو فیصلہ کرتے
سیاست میں مقدر سے اگر میں آ بھی جاؤں
میرے وعدوں کی شیرنی کو سرکاری نہیں کرنی
جہاں بہتی ہزاروں ندیاں ہیں 
لہو اپنا وہاں سستا بہت ہے
مذکورہ بالا اشعار سے شاعر کی عصری حسیت کا پتہ چلتا ہے۔آج ہم جن دھماکہ خیز حالات سے گزر رہے ہیںاس کا ادراک ہر کسی کو ہے۔مذہبی انتہا پسندی اور نسلی فسادات روزمرہ کے معمول بن چکے ہیں۔سیاسی شعبدہ بازی بھی جاری ہے۔جھوٹے وعدوں اور پُر فریب نعروں سے ووٹ بٹور کر  سیاسی رہنما جب گدی نشین ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں ایک بھی وعدہ یاد نہیں رہتا اور کرسی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جملے بازی اور ڈرامہ کرنے لگتے ہیں۔وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں ۔اس کے علاوہ انفرادی مفاد اور اپنی پارٹی کے لیے ملک اور قوم کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں‘جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔نوٹ بندی کا عذاب تو جھیل ہی چکے ہیں۔ساتھ ہی انصاف کا خون ہو رہا ہے ۔پانی مہنگا اور انسانی خون سستا ہو گیا ہے۔ جھوٹ کا بول بالا ہے۔غرض کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے‘اور ان کے دلوں کے اندر لاوا پکنے لگا ہے۔ ان میں ایسی بے چینی پائی جانے لگی ہے جو کسی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
یہ بات پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یاسین راہیؔ اپنی غزلوں میں رمزیت اور ایمائیت کے ذریعہ اشعار میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ساتھ ہی انھوں نے استعارات و علائم کا برملا استعمال بھی کیا ہے۔مثلاً
عالمِ مفلسی میں سائے کو 
دور جسموں سے بھاگتا دیکھا
سورج اوڑھے رہتا ہوں
برف سا لیکن ٹھنڈا ہوں
ذہن سناٹا اوڑھے سو رہا ہے
دن کی خبروں میں سنسنی کم ہے
غم کی چادر سمیٹ کر تیرے
سر پہ خوشیوں کا تاج رکھتا ہوں
اشا رے کنائے میں انھوں نے بڑی گہری بات کہہ دی ہے۔مفلسی اور تنگ دستی میں اپنے بھی دور بھاگتے ہیں۔ لوگوں میں بے حسی اس قدر ہے کہ سورج کی گرمی بھی جذبوں میں حرارت پیدا نہیں کر سکتی ہے۔ذہن پر اس لیے سناٹا طاری ہے کہ کوئی سنسنی خیز خبر نہیں ملی ہے۔شاعر چاہتا ہے کہ خود غم کا بار سنبھالے اور دوسروں کے سر پر خوشیوں کا تاج رکھ دے۔بہر حال ان اشعار کی معنوئی گہرائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔بعض جگہ انھوں نے اردو محاوروں کا بھی بر ملااستعمال کیا ہے۔جیسے:
سارے پکوان ہو گئے پھیکے۔صرف اونچی دُکان باقی ہے
لوگ کنّی نہ کاٹ لیں تم سے۔خود کو اتنا نہ معتبر رکھیں
یاسین راہیؔ ایک سچے اور پکے مسلمان ہیںجس کی بنا پر ان کی شاعری میں فکر اسلامی کے نقوش بھی واضح نظر آتے ہیں۔وہ اپنے عقیدے کا اظہار کہیں راست انداز میں کرتے ہیں توکہیں تلمیحات کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں :
کہ جس کو دیکھنا ہے باعث ِثواب یہاں
مری نظر میں وہی اک کتاب رہنے دو 
زمانے میں تمھاری ایسی کہاں تمثیل ملتی ہے 
فتح کعبہ کیا ہم نے ابابیلوں کے کنکر سے
ہمارے پاس اک ایسی بھی تاریخ ہے لوگو
کہ بچہ ایڑیاں رگڑے تو پھر دریا نکلتا ہے
محاذِجنگ میں راہیؔ تکبر ہار جاتا ہے
سبق ملتا یہی ہے تین سو تیر ہ کے لشکر سے
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ کسی بھی شاعر کے مزاج و میلانات ذہن و دل اور فکر و احساس سے آشنائی اس کے لفظوں کے بطون میں اُتر کر ہو سکتی ہے۔مختصر یہ کہ اکثر اشعار اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔اس نقطۂ نظر سے جب ہم یاسینؔ راہی کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو بیشتر اشعار سے ان کی فطری طہارت‘ ہمدردی‘جذبۂ ایثا‘رصداقت پسندی‘ محبت و مروت اور عزم و استقلال جیسے ارفع جذبات کا پتہ چلتا ہے۔حوالے کے لیے یہاں صرف چند شعر پیش کیے جاتے ہیں:
ہے تمنا کے خود کو دنیا میں 
چھاؤں دیتا ہوا ثمر دیکھوں
مری ہمت کو توڑنے والا
حوصلہ چاہیے زمانے کو
تمھیں جھوٹ کہنے کی طاقت بھلی ہو
مجھے جھوٹ سہنے کی عادت نہیں ہے
دشمنوں کے لیے طبیعت میں
دوستی کا مزاج رکھتا ہوں
مجموعی طور پر زیر نظر مجموعے کی غزلیں ذات سے کائنات کا سفر کرتے ہوئے انسانی سروکار کا ایک وسیع منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یاسین راہیؔ کی شاعری تہذیبی رویوں سے گزرتے ہوئے قدروں کے اس زوال آمادہ معاشرے کے انسان سے ہم کلام ہے اور بیشتر غزلیں بھی ان کی شخصیت کے مکمل اظہار کا وسیلہ بنی ہیں۔اُمید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ بھی پہلے کی طرح اہل ِ ادب کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ 
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages