Breaking

Post Top Ad

Sunday, October 7, 2018

مایوسی اور امکانات کا آئینہ دار ’’کھردرے ہاتھ‘‘

پروفیسر (ڈاکٹر)عشرت آرا سلطانہ
محلہ دائرہ ‘بہار شریف ‘نالندہ ۔803101(بہار)

اس وقت اس ناچیز کے پیش نگاہ معروف افسانہ نگار شہاب دائروی کا افسانہ’’کھردرے ہاتھ‘‘ہے۔ شہاب دائروی کم وبیش نصف صدی سے افسانہ نگاری کے ذریعہ اپنے افکار و خیالات اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار مسلسل ومتواتر فرما رہے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ آپ محتاج تعارف نہیں ہیںکیونکہ آپ کے چار افسانوی مجموعے منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ خدا بھلا کرے آپ کا کہ اس اردو شعروادب کی پستی اور اس سے غیر اعتنائی کے دور میں بھی آپ اپنے اردو دوستی اور فن افسانہ نگاری سے قلبی لگاؤ کے اظہار کے طور پر اپنے قلم کو متحر ک وفعال رکھے ہوئے ہیں۔تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ اس وقت آپ کی عمر اڑسٹھ (۶۸؍)سال سے کچھ متجاوز ہی ہوگی ۔اس کبر سنی میں آپ کے افکار و خیالات اور بنت کاری اپنے پورے شباب پر ہے ۔یہ وہ عمر ہے جس عمر میں ایک فن کار تھک ہار کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتاہے۔اس کی کشت ذہن کی پیداوار ی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور اس کے فکر و شعور پر خامشی کے گھنے اور سیاہ بادل منڈلاتے رہتے ہیں جو تخلیقی چراغوں کے شعاعوںکے لئے سد راہ کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔لیکن یہ تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ جب اہل قلم کا تخلیقی جذبہ اور تخلیقی پرواز جاری رہتی ہے تو وہ اپنے تخلیقی عمل کو ہر حال میں جاری و ساری رکھتا ہے۔ خواہ اس کی راہوں پر جس قدر آندھیاں‘طوفان‘زلزلے رونما ہوں۔زندہ دل اور پُرعزم و حوصلہ مند اہل قلم کی راہ میں نہ کہ سستی مانع ہوتی ہے اور نہ دیگر مصائب و دشواریاں۔ جو شخص مصمم ارادے کے تحت تخلیقی میدان عمل میں اُتر جاتا ہے۔ وہ اپنی منزل مسخر کئے بغیر دم نہیں لیتا ۔اور اس کی منزل محض کچھ شہرت اور نام و نمود کی حصولیابی تک محدود نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کی منزل اپنے آخری دم تک تخلیقی عمل کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی فن کار اپنے تخلیقی عمل سے نہ کبھی آسودہ ہوتا ہے اور نہ ہی مطمئن ۔ایک تشنگی‘ایک کسک اور مزید کچھ معاشرے کو عطا کرنے کا جذبہ اس کے سینے میں ہمہ اوقات جاگزیں رہتا ہے۔اور وہ اپنی کاوشوں میں سرگرداں دنیا و مافیہا سے لاتعلق اپنے تخلیقی سفر پر گامزن رہتا ہے۔ چنانچہ شہاب دائروی اگر اس کبر سنی کے باوجود اپنا تخلیقی عمل جاری رکھتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہا ں اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی بڑے ہی ایماندارانہ اور مجاہدانہ طور پرفرما رہے ہیں۔لیکن اسے کیا کہئے کہ آج کا زمانہ کسی کے پُرخلوس کارہائے نمایاں کا انعام تو در کنار داد بھی دینا فراموش کر گیا۔ایسے ہی کتنے اہل قلم ہیں
جن کے بے انتہا احسانات اردو شعروادب اور اہل اردو پر ہیں انھیں سرے سے فراموش کر دیا گیا۔ان کی لامتناہی کاوشوں کا صلہ ان سے اغماز اور بے اعتنائی کی شکل

میں ادا کیا گیا۔کچھ تو اپنی اس نا قدری کے باوجود متبسم انداز میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور کچھ اشک ریزی کے باہم زاد سفر باندھے رخصت ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ایسے ہی مخلص اہلِ قلم میں ایک نام شہاب دائروی کا بھی ہے جو شہرت و دولت کی حرص و ہوس سے دور اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہیں۔
یوں تو آپ کے ادبی سفر نامے اور آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد قلمکاروں نے خامہ فرسائی کی زحمت گوارا کی ہیں۔ مثلاً پروفیسر وہاب اشرفی‘پروفیسر احمد سجاد‘پروفیسر ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن‘منظر کلیم‘پروفیسرعلیم اللہ حالی‘پروفیسر کاظم‘سید معلوم عزیز کاظمی‘ظہیر صدیقی‘عطا عابدی‘پروفیسر ضیاء صابری‘افتخار عظیم چاند‘ڈاکٹر ابو بکر جیلانی‘ محمدسلیم ہاشمی‘نوشاد معین‘بے نام گیلانی‘ڈاکٹر سید مرتضیٰ‘بانو گیلانی وغیر ہم ۔پھر بھی اس ناچیز کو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جتنا کام آپ کی شخصیت اور آپ کی فن کارانہ صلاحیت نیز آپ کی نگارشات کے حسن و قبح کے متعلق عمل پذیر ہونا تھا وہ ابھی تشنہ ہے۔ میرے خیال میں موصوف کی شخصیت اور نگارشات کے کئی پہلو ابھی متقاضی تحقیق و تجسس ہیں۔
ادھر کچھ سالوں سے موصوف کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی مضامین باصرہ نواز ہوئے۔ چونکہ ابھی آپ کا تخلیقی سفر جاری ہے چنانچہ قوی امید ہے کہ آپ پر مزید کام عمل پذیر ہوگا اور آپ کو وہ مقام و مرتبہ ضرورحاصل ہوگا جس کے آپ واقعی مستحق ہیں۔
اس ناچیز کی خامہ فرسائی کا مقصد محض شہاب دائروی کی تعریف و توصیف بیان کرنا نہیں کہ یہ ناچیز آپ کے افسانہ’’کھردرے ہاتھ‘‘کا تجزیہ کرنے سے قبل مذکورہ افسانہ کے افسانہ نگار کا مختصر تعارف بیان کرنا تھا۔ کیونکہ فن کار کی شخصیت سے فن کار کے فن پارے کا بڑا گہرا تعلق ہوتاہے۔ کسی نو آموز فن کار اور کہنہ مشق فن کار کی نگارشات کا تجزیہ یکساں طور پر نہیں کیا جا سکتاہے۔کہنہ مشق فن کار کے افکار و خیالات پختہ و بالیدہ ہوتے ہیں ۔اور اس کی فن کارانہ مشاقی اس کی نگار شات کی معنویت و افادیت کی ضامن ہوتی ہے۔ دوسری جانب نو مشق فن کار اپنے تجربات کے مرحلے
میں ہوتا ہے۔ جس کی نگارشات کا معنوی پہلو کمزور اور افادی پہلو غیر مستحکم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پھر ایک فن کار کے تجربات و مشاہدات کا طویل سلسلہ اس کی نگار شات کی قدر وقیمت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی خیال کے تحت راقم الحروف نے شہاب دائروی کا مختصر تعارف پیش کیا۔کیونکہ کہنہ مشق فن کار کی فنی چابک دستی نسل نو کے لئے مشعل راہ کا کام انجام دیتی ہے۔
افسانہ’’کھردر ے ہاتھ‘‘کا عنوان ہی افسانوی نظر آتا ہے۔ ہاتھوں کا کھردرا پن ایک انسان کی بے بسی مجبور ی اور مختلف مسائل و مصائب کا مظہر ہوتا ہے ۔قدرت نے تمام انسانوں کی جو تجسیم کی ہے وہ یکساں طور پر ہے۔ لیکن وقت اور حالات کے ظالمانہ روییّ کے باعث ہتھیلیوں پر کھردرے پن اور مقدر میں کھوکھلاپن از خود نمایاں ہوجاتا ہے۔ جس کا علاج بھی وقت کے مرہم ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ یہ کھردرا پن قدرت کے انعامات کی نشانی نہیں بلکہ امتحانات کاآئینہ دار ہوتا ہے۔شہاب دائروی نے اس کھردرے پن کو اپنے افسانے میں مرکزیت عطا کر کے اپنی فکری جولانیوں اور فنی چابکدستی کا بڑے ہی احسن طریقے سے مظاہرہ کیا ہے ۔
کسی بھی افسانہ کی تخلیق میں سب سے اولین مرحلہ پلاٹ کا ہوتا ہے ۔پلاٹ یعنی کہانی کا پلاٹ جس قدرپُرکشش اورپُر اثر ہو گا افسانہ اسی قدر افادی اور پُر معنی ہو گا۔ شہاب دائروی کی صفت یہ ہے کہ آپ پلاٹ کے انتخاب میں بڑی ذہن کوبی اور تدبر سے کام لیتے ہیں۔ پلاٹ کے انتخاب میں اس امر کو ملحوظ رکھنا غایت درجہ ضروری ہے کہ یہ سیدھا سادا ہو۔اس میں ابہام و الجھاؤ کی کوئی گنجائش نہ ہوتا کہ قاری کی فہم اسے درست طور پر بہ آسانی انگیز کر سکے۔ مذکورہ افسانہ کا پلاٹ بالکل سادہ اور سپاٹ ہے۔نہ کہیںابہام ہے اورنہ جھول۔۔۔۔قاری بغیر مشقت کے اس کی معنوی گہرائی میںاُتر سکتا ہے ۔اور افسانہ نگار یا افسانہ کی تخلیق کے اغراض و مقاصد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ افسانہ نگاری میں یہ وہ وصف ہے جس کے بغیر کوئی بھی افسانہ نگار مقبولیت اور شہرت کا زینہ طے نہیں کر سکتا۔۔۔۔موصوف کا یہ پلاٹ واقعی قابل داد ہے۔
’’اٹھارہ سال پہلے برفیلی ہوائیں ترائیوں سے گزرتے ہوئے نشیبی علاقے میں جب کہرا ہی کہرا پھیلائے ہوئے تھیں تو نصف ڈھلی کپکپاتی ہوئی رات میں کٹیہار اسٹیشن کے تین نمبر پلیٹ فارم کے کنارے کمبل کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا ایک نوازئیدہ بچہ اپنی قسمت کی تاریکی اور انسان کی انتہائی ذلّت پر چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا وہ بچّہ تم ہو۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔۔!وہ میں ہوں جس پر ماں کی مامتا کی بارش کبھی نہیں ہوئی ۔باپ کی شفقت سے ہمیشہ بے خبر رہا۔یتیم خانے کے نگراں رحمت بخش پولیس کی کاروائی کے بعد مجھے اُٹھالائے تھے ‘ کم عمری جس طرح گزری کہہ نہیں سکتا‘ ذہن میں جب سوچ کی روشنی پھوٹی تو قوم کی روٹیوں پر پلنے والا یتیم تھا۔جو کلاس میں سر کھپانے کے بعد نگراں کے گھر کے کاموں میں بیل کی طرح جتا رہتا ہے۔ ایک بار یہ ہوا کہ پانی لے جانے میں سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ہاتھوں کی رگوں میں تناؤ سے جب درد ہوا اور بوجھ ناقابلِ برداشت ہو گیا تو بالٹیاں میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑیں اور جگہ جگہ سے پیچک گئیں ‘مجھ سے جُرم ہوا تھا ‘سزا ملی اور میرے ہاتھوں پر کئی نشان پڑ گئے۔پھر بات بات پر نشان پڑتے گئے۔ کبھی نگراں کے لڑکوں سے برابر کی بات کرنے پر ‘کبھی ان کی طرح کھیلنے کی ضد کرنے پر ۔۔۔۔‘‘(کتاب’’شہتوت‘‘۔صفحہ۔۱۵۶۔۱۵۵)
فن افسانہ نگاری کا دوسرا مرحلہ کردار نگاری کا ہوتا ہے۔پلاٹ کی کامیابی کردار کے انتخاب پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔۔شہاب دائروی کے افسانہ میں کردار نگاری بڑی ہی سوجھ بوجھ کے ساتھ کی گئی ہے۔اس میں محض دو مرکزی کردار ہیں ۔کسی افسانے میں کردار کا عددی اختصار اسے بہت سارے نقائص سے محفوظ رکھنے میں معاون ہوتا ہے اور پلاٹ کو صحیح سِمت لے جانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
ایک وقت اور نصیبوں کا مارا نعمان ہے ۔یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا فرد ہے جو ظالم زمانے میں کسی کے گناہوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔۔۔۔اور ناکردہ گناہوں کی سزا۔۔۔۔۔جس کے والدین نے ایک ٹھٹھری ہوئی سرد رات میں ریلوے پلیٹ فارم پر لاوارث چھوڑ دیا تھا۔یہ اس معاشرے کی وہ کریہہ تصویر ہے جس کے باعث کتنی معصوم زندگیاں پروان چڑھنے سے قبل دم توڑ دیتی ہیں۔۔۔۔یقیناً ایسا اسی وقت درپیش آتا ہے جب وہ کسی جوڑے کی ناجائز اولاد ہو۔ آج اس معاشرے میں جو پیش آرہا ہے خصوصاً اسکول کالج کے طلبا و طالبات کے ناجائز تعلقات یا پھر محلّے کے نوجوان کی جنسیاتی خواہشات کی تکمیل یا کم مائیگی کے شکار خاندانوں کی جواں سال دوشیزاؤں کا حشر یا پھر معاشرے کی تکمیل کا مسئلہ ایسے نا تحمل واقعات کے پس منظر میں وہی سب معاملات ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کے لئے کس قدر مضرت رساں ہوتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر نعمان کی زندگی ہے اور اس زندگی کے طور پر ’’کھردرے ہاتھ‘‘کو استعمال کیا ہے ۔اس کے ایک ایک نشان پر کتنی ہی کہانیاں رقم ہو سکتی ہیں۔اسے بھیجنے کے لئے قاری کو تدبیر کی راہ اختیار کرنی ہو تی ہے۔۔۔۔گو کہ یہ افسانہ علامتی نہیںہے۔۔۔۔۔پھر بھی جو ’’کھردرے ہاتھ‘‘کا وجود ہے وہ ایک علامت ہی کے طور پر ہے جسے اہل بصیرت بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ تو ہمارے معاشرے کی محض ایک تصویر ہے ۔دوسری تصویر کا ترجمان اس افسانہ کا دوسرا کلیدی نسوانی کردار ریشما ہے۔ دولت و ثروت میں پرورش و پرداخت پائی ریشماں ان گمراہ دوشیزاؤں سے مختلف ہے جن کے قدم کثرت مال وزر کے باعث عیش و طرب کی طلب میں اکثر ڈگمگا جاتے ہیں اور کئی دوشیزائیں تو دانستہ اپنی جنسیاتی تشنگی کی سیری کے لئے از خود گمراہی و تاریکی کی دلدل میںاُترتی جاتی ہیں۔اور پھر وہاں سے نکلنا دشوار تو ہوتا ہے ‘کبھی کبھی ناممکن سا ہوجاتا ہے۔اور کبھی کبھی وہ درپیش ہوتا ہے جس کا شاخسانہ نعمان جیسے انسان کا وجود اور اس کے ہاتھوں کا کھردراپن ہے۔
مذکورہ افسانہ کا دوسرا کلیدی کردار گو کہ ناز و نعمت میں پرورش و پرداخت پائی
ہوئی اس جدید دور کی نیک بخت سلجھی ہوئی اور دل میں انسانی ہمدردی رکھنے والی جوان سال دوشیزہ ہے ۔یہ ہمارے معاشرے کی وہ حسین تصویر ہے  جس کی ضوفشانی سے معاشرے کے منور ہونے کے امکانات جاگزیں ہوتے ہیں۔گو کہ اس کالج میں دیگر نسوانی کردار بھی ہیں جن کے لئے افسانہ نگار نے محض اشاروں سے کام لیا ہے۔وہ جدید دور کے رنگوں میں کچھ اس طرح رنگی ہیں کہ ان رنگو ں سے ان کا رنگ پراگندہ ہی نہیں بلکہ تعفن آمیز ہو جاتا ہے۔لیکن یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ اس ماحول میںرہنے والی ریشماں ان سے مختلف ہے۔ نہ حسن و جوانی پہ ناز‘نہ عشوہ و ادا اور نہ اپنی شخصیت پر افتخار نہ تکبر اور نہ جاہ و جلال بلکہ ایک سیدھی سادی لڑکی جو اپنے مقصد اولین یعنی حصول تعلیم میں ہمہ اوقات منہمک لیکن نگاہوں کے دریچے وا رکھنے والی اپنے ماحول اور فضا پر عقابی نگاہ رکھنے والی اور اپنے دل میں انسانی ہمدردی کو محفوظ رکھنے والی دوشیزہ ہے۔جسے جدید دور کی ہوس پرستی اور بے راہ روی نے لمس تک نہیں کیا ہے۔بلاشبہہ وہ بھی ابھی جواں سال ہے ‘اس کے بھی جذبات و ارمان ہیں۔اس کا بھی دل دھڑکتا ہے ‘اس کی سانسیں بھی گرم ہوتی ہیں۔ لیکن اس نے اپنے اخلاق و کردار کے قدم کو بڑے ہی استحکام و استقلال سے مثبت زمین پر جمائے رکھا۔اس کے لبوں پر تبسم نے اٹھکیلیاں کیں‘جذبات بھی جواں ہوئے‘اس کی نگاہوں میں بھی چمک پیدا ہوئی۔ لیکن کس کے لئے ‘ایک وقت کے مارے غریب و مفلس نوجوان کے لئے جس کا ماضی انتہائی کربناک واذیت ناک گزرا اور حال بھی جہدِ مسلسل کا غماز ہے۔یہ وہ نوجوان ہے جو مصیبتوں ‘محرومیوں اور فاقہ مستی کی بھٹّی میں تپ کر کندن کی طرح اپنے معاشرے میں ضوفشاں رہا اور اس ضو فشاں کردار کی ضو فشانی سے متاثر ناز و نعم میں پلا نسوانی کردار ریشماں ہے۔ یہ دونوں ہی کردار معاشرے کی حقیقی تصویر ہیں۔ معاشرے میں ایسے کردار موجود ہیں جو اس کے تئیں اپنی ذمہ داریوںسے آگاہ ہیں۔ مصیبتوں کے انبار میں بھی حصولِ منزل کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو کسی کی مجبوریوں اور محرومیوں سے مغموم ہوتے ہیں۔ اور ان مجبور اور مایوس انسان کی امداد کرنا اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔ جس انسان کے اندر جینے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے اس کے اندر جینے کی خواہش بیدار کرتے ہیں۔یہاں شہاب دائروی نے نہ صرف اختصار سے کام لیا ہے بلکہ تعجیل کو راہ دی ہے۔ریشماں جب نعمان کی رودادِ غم سُن رہی ہوتی ہے تو خاموشی مقتضائے وقت تھی۔ لیکن نعمان کے قصہ ختم کرنے کے بعد ریشماں کا محض تبسم بکھیر کر کسی دکان میں داخل ہوجانا محّلِ نظر لگتا۔ وہاں نہ کوئی ہمدردی کے کچھ الفاظ اور نہ صبر و سکون و جدوجہد کی تلقین ‘یہ عمل خلاف توقع ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہاب دائروی نے اختصار کے لئے دل کی تڑپ پر قدغن لگا دیا۔بلاشبہ ایک جواں سال دوشیزہ کا ہمدردی و محبت بھرا تبسم اس کے زخم خوردہ دل کے لئے مرہم کا کام کر گیا۔لیکن یہ بھی اس کم علم کی فہم سے پرے ہے کہ محض چند مشینی مرہم سے کیا واقعی ان ہاتھوں کا کھردرا پن جو ہاتھوں کی ہتھیلی سے لے کر دل تک پھیلا ہوا ہے وہ ختم ہوسکتاہے۔اس کے کھردرے پن کا مرہم تو اس نسوانی کردار کے دو محبت بھرے بو ل ‘بدمست نگاہوں کے پیالے میں بھری ہوئی بادہ ٔ شوق اور قیامت خیز اداؤں اور نگاہوں سے دورتک تاریکیوں کی ٹھنڈک سے منجمد ہوتے احساسات و جذبات کو گرما و برما کر اس کے اندر امکانات کے چراغوں کو روشن کرنا تھا۔مگر ایسا عمل پذیر نہیں ہو سکا۔چونکہ فن افسانہ نگاری خود اختصار کامتقاضی ہوتا ہے پھر شہاب دائروی مزید اسے مختصر کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ جس سے آپ کے افسانے میں حسن تو دوبالا ہوجاتا ہے لیکن معنویت پر اس اختصار کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہاں!شہاب دائروی نے جو مکالمے مرتب کئے ہیں وہ واقعی پُر اثر اور معنی خیز ہیں۔ملاحاحظہ ہو:۔
’’کار کی سائڈ اسکرین پر بارش کے چھینٹے پڑ کر مٹ رہے تھے‘ یہ چھینٹے ایسے تھے جن کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ لیکن یہ چھینٹے جب زمین کے جگر میں اُترتے ہیں تو زمین سے سوندھی سی خوشبو اڑتی ہے۔ فصلیںاُگتی ہیں ‘ کھیت لہلہاتے ہیں اور برسوں خوشیاں بکھرتی ہیں۔دونوں کی افادیت میں کتنا برا فرق ہوتا ہے‘‘۔(کتاب ’’شہتوت‘‘صفحہ ۔۱۵۳)
گو کہ یہ فلسفیانہ انداز بڑا ہی معنی خیز اور حوصلہ افزا ہے۔ لیکن یہ اس کہانی سے کہاں تک ہم آہنگ ہے یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔ پھر بھی یہ تو ایک بلاتردید حقیقت ہے کہ معاشرے میں پانی کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ الغرض شہاب دائروی جہاں راست طور پر پُر معنی انداز میں اپنی بات رکھنے پر قدرت رکھتے ہیں وہیں آپ فلسفیانہ طور پر بھی حقائق اُجاگر کرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔ آپ نے ایک مقام پر کچھ اس طرح نعمان کی روداد ِ حیات بیان کیا ہے۔
’’میری بہت سی راتیں جاگتے ہوئے اس سوچ میں گزری ہیں کہ کون ہوں‘چمن کے کس شاخ کا پھول ہوں پر آج تک نہیں جان پایا ہوں۔ اندھیروں میں بھٹکتا ہوا۔۔۔۔۔اُجالے کی تلاش میں نہ جانے کتنی بار کٹیہار اسٹیشن کے تین نمبر پلیٹ فارم پرسرگرداں رہا ہوں اور ہر بار وہاں سے لوٹ کر اپنے وجود سے نفرت کے اظہار پر روتا رہاہوں‘‘۔ (کتاب’’شہتوت‘‘۔صفحہ۔۱۵۶)
الغرض شہاب دائروی ایک پختہ کار اور تجربہ کار افسانہ نگار ہیں ۔آپ نے اپنے معاشرے کا بغائر نظر مطالعہ کیا ہے۔اور اپنے آس پاس کے معاملات و
واقعات سے خوب آگاہ ہیں۔آپ کی نگاہ کسی عمیق شے ٔکی متلاشی نظر نہیں آتی ہے بلکہ معاشرے میں جوعام طور پر نظر آتا ہے اسے ہی آپ اپنے افسانوں کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ لیکن آپ چونکہ ایک کہنہ مشق اور بیدار نظر و بیدارمغز انسان ہیں اور ساتھ ہی بیانیہ پر بھی آپ کو قدرت حاصل ہے‘ اس لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی آپ بڑے ہی دل آویز اور موثر طریقے سے پیش کرتے ہیں جس کے باعث آپ کے افسانوں پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ مذکورہ افسانے میں کچھ ایسا ہی ہے۔ آپ نے اس افسانے میں آئینے کے عکس کی طرح دل کی تہوں میں جھانکنے کی قابل ستائش سعی کی ہے۔ جو آپ کا خاصہ بھی ہے اور آپ کی انفرادیت بھی۔ آپ کے کئی افسانے ایسے ہیںجن میں آپ نے ایک نقطہ کو کائنات میں تبدیل کر کے اپنی فن کارانہ مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔٭٭٭
      

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages