Breaking

Post Top Ad

Monday, October 8, 2018

ٹائم پاس

  


  ٹائم پاس              




ضیا رومانی کولاری


      
            ہمارے پڑوسی نے ہمیں چند مخصوص ہدایتیں دیںاورفون پر ایک نوجوان کا نمبر مِلاکر فون ہمارے ہاتھ میں تھمایا۔ہم نے بات چیت کا آغاز کیا۔۔’’اسلام علیکم ۔۔آپ کا تعارف؟‘‘۔۔
اُدھر سے جواب مِلاکہ۔۔’’میں ایک مشہور و مقبول پرائیویٹ فرم میں انجنیر(Engineer) ہوں۔ماہانا چالیس ہزار تنخواہ پاتا ہوں، ابھی کنوارا ہوں‘‘۔۔
ہم نے پوچھا۔۔’’کیا آپ اپنے  فیوچر پلان (Future Plan)سے ہمیں واقف کراسکتے ہیں؟‘‘۔۔۔
           ۔۔’’ضرور!  میرا  پلان (Plan)ایک عدد لڑکی سے شادی کرنا ہے‘‘۔۔
ہم نے تعجب سے کہا۔۔’’بس ایک کافی ہے؟ ‘‘۔۔
          ۔۔’’ ہاں! ہمارے پاس فالتووقت نہیں ہے، محض ایک کی گنجائش ہے ‘‘۔۔
ہم نے چٹکلا چھوڑا۔۔’’ گویا آپ اپنے فری ٹائم (Free Time)میںٹائم پاس (Time pass)کرنا چاہتے ہیں‘‘۔۔
پھر سنجیدگی سے کہا۔۔’’ خیر چھوڑئے ان باتوں کو۔ چلئے !ہم اپنے مطلب پر آتے ہیں۔ اچھا تو بتائے کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں؟۔۔
۔۔’’کچھ خاص نہیں، بس ا ینگیج منٹ(Engagement)میںدس لاکھ روپئہ 

ہماری ممی کوادا کرنے ہوں گے، ویسے توجہیزووڈ بی (Would be)ساتھ لائے گی ہی؟ چونکہ میںبنگلور سٹی میں ایملائڈ (Employed)ہوں۔ پرمننٹ سٹلمنٹ(Permenent settlement) کے لئے ایک عدد 30x40سائٹ کا بھی ڈمانڈ (Demand)ہے‘‘۔۔
ہم نے اپنی رضامندی جتائی۔۔’’ ہمیں ایسے ہی اڈوانسڈ(Advanced) نوشاہ کی کھوج تھی۔ہمیں آپ کی ساری شرطیں منظور ہیں۔اب منہ دکھائی کی رسم کب مناسب ہوگی؟۔۔
اس نے اپنا موقف بتایا۔۔’’ہمارے پاس ایسی خرافات کے لئے گنجائش نہیں ہے،اگر آپ تیار تو ابھی موبائل یا انٹر نٹ پر یہ رسم ادا ہوگئی سمجھو‘‘۔۔ 
  ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔۔’’آپ جو بھی مناست سمجھیں ہمیں منظور مگر ہمیں آپ کی والدہ کو ایک نظر دیکھ لینے تو دیجئے‘‘۔۔
اس نے جھلاہٹ سے کہا۔۔’’ وہ کس لئے؟ارے! ان اوٹ ڈیٹڈ(out dated) لوگوں میں کیا رکھا ہے،I meanان سے آپ کو کیا لینا دینا ہے؟۔۔
۔۔’’دیکھیں کہ اس قدرانمول اور ہونہار نوجوان کو جنم دینے والی وہ عظیم ہستی کون ہے؟۔اسی حیلے ان کی شان میں کچھ تحفہ تحائف کی پیش کش بھی ہوجائے‘‘۔۔
یہ سنکر لڑکے کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس نے ہم سے کچھ ہی دیر کی مہلت مانگی اورٹیکسی کے زریعہ اپنی والدہ کے ساتھ آ دھمکا۔ان کابظاہرشان دار استقبال کیا گیا۔اس نے اپنی ماں کا تعارف کرایااور وہ للچائی ہوئی نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔ ان دونوں کی نگاہیںچوری چوری  اس بنگلہ کی ہر چیز کا معائنہ کر رہی تھیں۔                                                       
ہمارے پڑوسی نے بے ساختہ کہہ دیا۔۔’’جس کی اولاد اتنی قابل،اس قدر انمول ہے تو اس کی ممی کا مول کیا ہوگا؟‘‘۔۔اور اپنی غلط بیانی پر جھینپ سا گیا۔۔مگراس لڑکے نے اور نہ ہی اس              
کی ماںنے اس جملہ پر غور کیا۔گویا لڑکی والوں کے اس بنگلہ کی چمک دھمک کے روبرو یہ جملہ بے 

معنی تھا۔میں نے فیصلہ سنایا۔۔۔’’ اچھا تو یہ سودا طے سمجھو‘‘۔۔ 
پڑوسی کے منہ سے ایک اور جملہ پھسل گیا۔۔’’  سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی نے کُل کتنے انڈے دئے ہیں؟۔۔
ہمیں خوف لاحق  ہواکہ کہیں اپنے پڑوسی کی گستاخی کے سبب معاملہ بگڑ نہ جائے۔۔مگرہمیں حیرت ہوئی کہ ان بے حس  اور بے غیرت لوگوں پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ
ہوا۔ہم نے معاملہ کو سلجھانے کی خاطر مداخلت کی۔۔’’یعنی آپ کے اور کتنے بھائی بہن ہیں؟۔۔‘‘
اس نے بڑی ہی شائستگی سے بتایاکہ۔۔’’میںان کا اکلوتا بیٹا ہوں، میرے ڈیڈی تو میرے بچپن ہی میں کسی حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔انہوں نے مجھے پالا پوسا بڑاکیا۔تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا‘‘۔۔                                                                                  
پڑوسی درمان میںپھر ٹپک پڑا۔۔’’کیا خاک تعلیم دی ہے؟سنگدل اور لٹیرا بنا دیاہے‘‘۔۔
لڑکا اپنی دُھن میں مگن تھا۔اس نے ان کے تبصرے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔۔’’ انہوں نے مجھ پربہت محنت کی ہے آخران کابھی تو کچھ حق بنتا ہے؟۔۔
۔۔’’ ارے!  ان کا تو پورا پورا حق بنتا ہے۔
ہم نے اس کے حوصلے بڑھائے،پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے کہا۔۔’’ کیوں نہیں ! کیوں نہیں!!  موجودہ (commercial Principles )کے تحت مناسب ڈمریج 
(Demrage)اداکرنا ہی پڑے گا‘‘۔۔
۔۔’’ آپ ٹھیک سمجھے ۔آپ بڑے جینیس(Genious)ہیں‘‘۔۔
جب اس طرح اس نے ہماری عقل کی داد دی تو ہمارے حوصلے اور بڑھ گئے ،بڑے ہی بھولے پن سے ہم نے ایک اور تیر چھوڑا۔۔’’آپ کی شادی کے بعد آپ کیout dated

 ماںرہے گی کہاں؟ کس ’بزرگوں کے گھر‘ ، آشرم یا ’نرسنگ ہوم‘ میں؟‘‘۔۔۔                       
اس بارہمارا تیر نشانے پر لگا تھا،وہ اچھل پڑا۔۔۔’’ آپ یہ کیاکہہ رہے ہیں؟ کیا ہم میں اتنی انسانیت نہیںہے کہ ہم اپنی ممی کودر بدر کی خاک چھاننے کے لئے چھوڑدیںگے‘‘۔۔
۔۔’’ہمیں پتاہے کہ آپ بھی انسان ہیں، آپ میں انسانیت، شرافت اور ہمدردی بھی ہے مگر وہ صرف اپنے لئے محدور ہے۔‘‘۔۔۔ہمارے لہجہ میںطنزشامل ہوگیا۔
ہمارے دماغ میں ایک اور سوال لہرایااور فوراً ہماری زبان پر چلاآیا۔۔’’ آج کل یہ لڑکے والے رشتہ کی کھوج کے حیلے گھر گھر کے چکر کیوں لگاتے ہیں؟۔۔                         
۔۔’’ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے،ان کے چال چلن ،رہن سہن تہذیب اور اخلاق کو دیکھنے کے لئے‘‘۔۔
بے ساختہ ہم نے کہہ دیا۔۔۔’’یا لڑکی والوں کی  Financial Positionکا اندازہ لگانے کے لئے؟اکثر چور بھی اسی طرح چوری سے پہلے اپنے نشانہ کے چکر لگاکرمال وزر کا تخمینہ لگاتے ہیں‘‘۔ 
ہماری اس بحث میں پڑوسی کہیں اور ہی بہک گیا۔۔’’ یہ Bargainکا طریقہ،یہ جوڑا گھوڑااور جہیز کے مذموم رسم ورواج توجاہلوں کاشیوہ تھا۔مگر آج کے یہ پڑھے لکھے لوگ اُن کی اندھی تقلیدکیوں کررہے ہیں؟ انہیں تو چاہے تھا کہ یہ ان سماجی بُرائیوں اور ناانصافیوں کے خلاف صف آرا ہوجاتے ،ان کی بیخ کُنی کی خاطر جہاد کرتے ،یہی تو ہے اصل جہاد ،یعنی کسی پر بلاوجہ تشدد یا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا ہی تو ہے جہاد۔یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟  انہیں کی تو ہے ۔مگر افسوس کہ 
 فکر نہ رہی ،افسوس ! !  یہ اپنی ڈگریاں دکھا دکھا کر بھیک ہی تو مانگ رہے ہیں ؟  بے غیرت کہیں کے ؟  ۔۔۔۔افسوس!  صد افسوس!!‘‘۔۔
ہم نے معاملہ کو سلجھانے کی ایک اور ناکام کوشش کی۔۔’’ارے!  ذراموقعہ محل دیکھ کر

ان میں اس ملّی زمہ داری کا احساس ہی نہ رہا ،ان میں کچھ اللہ و رسولﷺ کا خوف نہ رہا،آخرت کی  بات کیجئے۔اب جو معاملہ ہے اسے طے کرلیجئے‘‘۔۔
مگر وہ آپے سے باہر ہوگیا۔۔’’ہمارے پیغمبرؐنے ان سب باتوں کو ناپسندکیا،نہ ہمارے اصحاب نے ،نہ خلفاء راشدین نے اور نہ ہی اولیا  نے ان خرافات کی حمایت کی تو پھر تم لوگوں میں یہ مذموم رواج کہاں سے چلا آیا؟‘‘۔۔                                                   
  وہ کچھ سوچ کر لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوگیا،پھر کہنے لگا۔۔ ’’۔ اب آپ لوگ ’ بات چیت ‘ کے نام پرBusiness dealing کے لئے کب آ رہے ہیں؟  اور اپنے ساتھ اور کتنے بے غیرتbrokers کی فوج لا رہے ہو؟‘‘                                          
پھراس نے اپنے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا فیصلہ سنایا۔۔۔ ’’ہم مسلمان ہیں،ایک اچھے خاندان سے ہیں۔ آپ کی باتوں سے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ اسلامی دستور سے لاعلم ہیں،شادی بیاہ غیروں کے طرزپرکرناچاہتے ہیں،تو پھر آپ اسلام سے خارج ہوئے۔۔ آپ ایک غیر مسلم اور ہم ایک مسلمان ۔آپ اپنے اصولوں پر اٹل اور ہم اپنے اصولوں پر قربان۔ ہم ایسی انٹرکیسٹ میریج (Inter-cast Marriage)کے خلاف ہیںجو ہمیں دین سے بے دین کرتی ہے۔‘‘۔۔   
خیالات کے دھارے میں ہم بھی بہہ گئے۔۔۔’’ تو پھر رشتہ کہاں خاک ہوگا؟‘‘۔۔۔
ان باتوں سے ان کے پسینے چھوٹ گئے، لڑکابڑی ہی شرمندگی سے کہنے لگا۔۔۔’’ اب بس بھی کیجئے!  
آپ نے ہماری آنکھیں کھول دی،اب ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے،ان سب باتوں کو اب رہنے دیجئے۔‘‘۔۔ اس کی ماںکی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے۔ اس نے بڑی ہی ملائمت سے
کہا۔۔ذرا دیکھیں کہ وہ نیک بخت کون ہے؟‘‘۔۔یہ لڑکی کی طرف اشارہ تھا۔

  پڑوسی جھٹ سے اپنی جگہ سے اٹھا اور یہ کہتے ہوئے اپنے کمرہ کا رخ کیا۔۔’’وہ تو ٹھیک ہے۔مگر یہاں لڑکی ہی کہاں ہے؟  ہم نے تو محض ’ٹیم پاس‘ کے لئے آپکو بلایا تھا‘‘                       
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages