Breaking

Post Top Ad

Monday, October 1, 2018

غزل کو آئینہ بنانے والے شاعر۔غلام سرور ہاشمی

        غزل کو آئینہ بنانے والے شاعر۔غلام سرور ہاشمی
ایم۔نصراللہ نصر




اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ شعر و ادب کا تعلق آئینے سے ہوتا ہے ۔ شاعر یا ادیب جو اپنی تخلیقات پیش کرتا ہے قاری اس میں اپنی زندگی کے لمحات و تجربات کو دیکھنا پسند کرتا ہے ۔اگر اس کی زندگی کے حالات و معاملات کی عکس ریزی نظر آتی ہے تو وہ تخلیق اسے زیادہ پسند آتی ہے ۔ چونکہ شاعر و ادیب کے علاوہ انسان کے دکھ دردکا تذکرہ بھی اس کی تخلیقات کے موضوعات ہوتے ہیں اس لئے اس میں ہر قاری اپنی حیات و جذبات کی تصویر دیکھ لیتا ہے ۔ لہٰذا شاعری بھی ایک آئینہ ہے ۔غزل تو مکمل آئینہ ہے ہی جس کی وجہ سے شاعر کو کہنا پڑا کہ : 
سرورؔ دکھانا تھا مجھے چہرہ ہر ایک کا 
آئینہ ہر غزل کوبنانا پڑا مجھے 
         اس عمل میں وہ کہا ں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا مختصر تجزیہ حاضر خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں ۔جس طرح دنیامیں مختلف شکل و شباہت کے لوگ ہوتے ہیں ۔مختلف عادات و اطوار رکھتے ہیں‘متعدد مسائل ان کو درپیش ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح غزل کے مختلف اشعار بھی الگ الگ معنیٰ و مفاہیم کے پیکر میں ڈھلے ہوتے ہیں جن کے مطالعے کے بعد ایک غزل میں کئی چہرے عکس ریز ہو جاتے ہیں ۔ کئی حقائق سطح ِ آئینہ پر ابھر آتے ہیں ۔ اس پس منظر میں شاعرکی کاوش و فکر ملاحظہ فرمائیں: 
گلے شکوے کو اب دل سے بھلانے کی ضرورت ہے 
دلوں میں ایکتا پھر سے جگانے کی ضرورت ہے 
رہے ہندو ‘ مسلماں ‘ سکھ عیسائی میں نہ کچھ دوری 
محبت کا حسیں گلشن کھلانے کی ضرورت ہے 
         مذکورہ اشعار وطن پرستی اور قومی شاعری کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ ایسے اشعار کی ان کے یہاں کمی نہیں ۔ یہ شاعر کی تخلیق کا ایک چہرہ ہے جس میں وہ اپنے ملک کے بکھرتے شیرازہ کو دیکھ رہا ہے ۔ لوگوں میں پھیلی منافرت اس کے سامنے ہے ۔ آپسی بھائی چارہ کی عدم موجودگی ‘ قومی ایکتا کی کمی ‘ ذاتی واد ‘ مسلکی تناؤ ‘ مذہبی جھگڑے اور سیاسی بازیگری سب کچھ اس کے شیشۂ شاعری میں نظر آتے 
ہیں ۔ اس کی خواہش ہے کہ جس طرح ہندستانیوں ( ہندو‘ سکھ اور مسلمانوں ) نے 

ملک کی سا  لمیت اور سلامتی کے لئے ایک ہو کر جدو جہد کی تھی ‘ شہادتیں دی تھیں ۔جن 
کے اتحاد و اتفاق سے ملک آزاد ہوا لیکن آج پھر سے ملک منافرت کا غلام ہوتے جارہا ہے ۔ یکتا کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے ۔ دلوں میں رقابت کی گرد بیٹھتی جارہی ہے۔اس کے لئے وہ حد سے زیادہ فکر مند ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہے کہ :
ہمارے ملک کی تہذیب جو قائم ہے صدیوں سے 
اسے ہر حال میں ہم کو بچانے کی ضرورت ہے 
کسی کے دل میں نفرت اور حسد باقی نہ رہ جائے 
سبھوں کو پیار سے باہم ملانے کی ضرورت ہے 
        موصوف کی شاعری کا دوسرا پہلو پند و نصائح کی تشہیر و تبلیغ ہے جس کو نہایت ہی سلیقے سے کہنے کی کوشش کی ہے ۔یہ شیوہ تقریباً ہر شاعر کا رہا ہے ۔ سبھی نے اپنے اشعار میں قوم و ملت کو ‘بچوں اور بزرگوں کو اور راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے ایسے اشعار کہے ہیں ۔ موصوف کے اشعار بھی ملاحظہ کریں اور یہ دیکھیں کہ انھوں کس طرح سماج اور معاشرہ کو آئینہ دکھانے کا عمل کیا ہے ۔ :
کبھی خوشیاںکبھی دردو الم کا ساتھ رہتا ہے 
کبھی یکساں نہیں رہتی ے یہ تقدیر مدت تک
اگر کردار کو اپنے سنوارو گے تو دنیا میں 
ملے گی تم کو بھی سرورؔ یہاں توقیر مدت تک 
٭
وقت مٹھی سے نکل جائے گا بالو کی طرح
 ہوش میں آذرایوں وقت گنوانے والے
ایک اک پل کی کرو قدر ہمیشہ سرور ؔ
پھر نہ آئیں گے یہ لمحے کبھی جانے والے 
رومانیت شاعری کا موضوع ارتکاز رہی ہے ۔ شاعرکی شاعری کا اکثر آغاز بھی اسی مضمون بندی سے ہوتا ہے ۔ پہلے وہ عشقیہ اشعار کہتا ہے پھر 
دھیرے دھیرے حالات و مشاہدات کو موضوعِ بحث بناتا ہے ۔ لیکن رومانیت کی پاسداری میں’ قلم توڑ سیاہی پی جا ‘والی بات خوب ہوتی ہے سو سرورؔ صاحب نے بھی اس عمل سے گزرنے کی پوری کوشش کی ہے جس کی پذیرائی بھی ہونی چاہئے۔ اشعار ملاحظہ کریں :
مرے دل سے تری چاہت کا مٹنا غیر ممکن ہے
رہے گی میری آنکھوں میں تری تصویر مدت تک 
٭
تم مجھے دل سے بھلا دو یہ تمہاری مرضی 
میں نہیں تم کو کبھی دل سے بھلانے والا
اک نظر ہی تجھے دیکھا ہے مگر جانِ جگر 
مجھ کو لگتا ہے کہ برسوں سے ہے ناطہ اپنا 
         ان کے علاوہ شاعر کی شاعری میں تلمیحی تخلیقات کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ اس عمل میں بھی وہ ثابت قدم نکلے ہیں اور شائستگی و شگفتگی کے ساتھ اپنی بات کہنے کی پوری کوشش کی ہے ۔ تلمیحی اشعار کی بنت کاری میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ تیر نشانے پر لگے ۔ ذرا سی چوک معاملے کو درہم برہم کر سکتی ہے ۔ لیکن سرور صاحب نے احتیاط اور ہوشمندی کا دامن چھوڑا نہیں ہے اور سلیقے سے اپنی بات صفحۂ قرطاس پر سجا دی ہے ۔ مشاہدہ کریں :
کفر کی تاریکیاں بڑھنے لگیں دنیا میں جب 
نورِ حق سے آپ نے ہرسو چراغا ں کر دیا 
٭
حق کا پر چم لئے ہاتھوں میں وہی آلِ رسول 
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے  
         عصری آگہی کا اکثر ذکر آتا ہے جس میں شاعر اپنے سیاسی ‘ سماجی ‘ تہذیبی اور معاشرتی مشاہدے کا تذکرہ لفظوں کی خوبصورت آویزش سے منعکس کرتا ہے جسے پڑھ کر یا سن کر قاری اور سامع جھوم اٹھتا ہے ۔یا پھر دل مسوس کر رہ جاتا ہے ۔ اس میں تلخ حقائق کا اظہار اس سلیقے سے کیا جاتا ہے کہ اس کااثر سیدھے دل پر ہوتا ہے ۔ جو گھائل بھی کرتا ہے اور سرور بھی فراہم کرتا ہے ۔اشعار ملاحظہ کریں:
کہنے کے لئے اپنے ہزاروں تو ہیں مگر 
مشکل میں اپنا کوئی مدد گار نہیں ہے 
٭
راہ میں پھول بچھاتا رہا جن کی ہر دم 
میرے رستے میں وہی کانٹے بچھانے نکلے
٭
قاتل نہیں ہے اور گنہگار نہیں ہے 
اس کو سزا ملی جو خطاکار نہیں ہے 
        اس کے علاوہ بھی سرور ساحب کی شاعری میں بہت کچھ شامل ہے بشرطیکہ انھیں ٹھیک سے پڑھا جائے اور ان کے کلام کو سمجھا جائے۔ موصوف نے نعتیہ غزل بھی کہنے کی اچھی کاوش کی ہے ۔ جس کے ہر شعر میں حضور اقدس کی فضیلت آشکار ہوئی ہے ۔ملاحظہ کریں: 
کفر کی تاریکیاں بڑھنے لگیں دنیا میں جب 
نورِحق سے آپ نے ہر سو چراغاں کر دیا  
اک ہدایت کا صحیفہ ہم کو دے کر آپ نے 
امتِ عاصی کی بخشش کا بھی ساماں کر دیا 
یہ مرے آقا کی چشمِ فیض کا ہے معجزہ 
جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کر دیا   
یہ بھی ہے تسلیم سرور ؔ دے کے پیغامِ وفا 
آدمی وحشی تھا پہلے اس کو انساں کردیا 
         مختصر یہ کہ سرور صاحب کی شعر گوئی کی عمر زیادہ نہیں ہے ۔اس لئے پختگی کے لئے کچھ اور آنچ کی ضرورت ہے ۔کہیں کہیں خود کو مزید سنوارنے کی طلب بھی ہے ۔زبان و بیان پر بھی کچھ اور توجہ چاہئے ۔ اس کے باوجود ان کے اندر شعر کہنے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔ اسلوب بھی قابلِ تحسین ہے ۔ لیکن اسے منزل سمجھ لینا سدِ راہ کا سبب ہوگا ۔ شاعری محنت ‘ مجاولت ‘ مشاقیت اوربار بار تراش و خراش چاہتی ہے ۔ غزل کی مرصع سازی میں فصاحت کی مقدار زیادہ ہونے سے غزل کے اشعار کے وقار اور نکھارمیں خوبصورت اضافہ ہوتا ہے۔ امید ہے وہ اس کا خیال ضرور رکھیں گے۔کچھ اشعار جو نظر ثانی کے طالب ہیں درج ذیل ہیں :
عشق میں پھاڑ دیا جیب و گریباں اپنا 
وہ نظر آتے ہیں اب پیار میں پاگل کی طرح 
                                     (اس میں فصاحت کی ضرورت ہے )
تم جا چکے جو روٹھ کے مجھ سے مرے رفیق 
مدت ہوئی تمہارا سماچار نہیں ہے 
                                                   (  فصاحت کی کمی)
تمہارے بن مجھے شام و سحر اب 
کسی پہلو سکونِ دل نہیں ہے  
                                              ( لفظ ہے توجہ طلب ہے )
 پھر بھی شاعر کی حوصلہ افزائی لازمی ہے ۔ اس لئے کہ وہ ابھی شعری سفر کے ابتدائی مرحلے میں ہے ۔ منزلیں آسان بھی ہو سکتی ہیں ۔ اس کی تخلیق میں بھی سر خاب کے پر لگ سکتے ہیں ۔ اس کا مجھے گمان بھی ہے اور یقین بھی۔ 
٭٭٭ 


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages