Breaking

Post Top Ad

Thursday, October 4, 2018

غلام سرور ہاشمی۔ایک ہونہار شاعر

سبطین پرواز
کٹیھار (بہار)
اردو اور ہندی کے ادبی منطر نامہ میں غلام سرورصاحب اپنی شاعری کے حوالے سے ابھرکر سامنے آنے والے نوجوان شاعر ہیں۔ درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔شاعری کے علاوہ مشاعروں کی نظامت بھی بحسن خوبی کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف خطوں میںاپنے فکر و فن کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اردو رسائل و جرائد کے علاوہ ہندی کی نئی بستیوں سے شائع ہونے والے کوئی درجن بھر ہندی پرچوں کی نمائندگی انھیں حاصل ہے۔ ساتھ ہی اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے مقتدر ادبی رسائل کی مجلس مشاورت کے اہم رکن کی حیثیت سے ان کی توسیعِ اشاعت میں بھرپور تعاون دے رہے ہیں۔اپنے منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے ہندی اور اردو زبانوں کے پروگراموں میں مقبولیت حاصل ہے۔
انھوں نے ۸؍جون ۱۹۸۳ء کو ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں آنکھیں کھولیں یہ صوبہار کے ضلع گوپال گنج کے بسڈیلہ ٹولہ مرغیاں میں ایک با عزت شریف خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ ابتدائی دور سے ہی تعلیم کی طرف رجحان تھا۔اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی جنون کی حد تک کوشاں رہتے تھے اور وہ جنون آج بھی جاری ہے ۔اردو انگریزی دونوں زبانوں میں M.Aکے سندیافتہ ہیں اور ایک ہائی اسکول میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
غلام سرور ہاشمی صاحب کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا بلکہ موصوف تو موروثی شاعر ہیں ان کے دادا پر دادا طنز و مزاح کے شاعر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے پہلی غزل ۱۹۹۹ء میں کہی جس کے دو شعر طبع کی ضیافت کے لئے پیش کیے جاتے ہیں۔
خوشی کے واسطے ہر غم چھپائے جاتے ہیں
 غموں کا بوجھ بھی خود ہی اُٹھائے جاتے ہیں
بچھایا کرتے تھے پلکیں ہم ان کی راہوں میں
ہمارے دل پہ وہ خنجر چلائے جاتے ہیں
غلام سرور ہاشمی صاحب کو اپنے دادا کی حوصلہ افزائی اور دعائیں ملتی  رہیں اور آگے قدم بڑھاتے رہے۔ جناب کوثرؔ سیوانی صاحب سے مشورۂ سخن کرتے
تھے پھر ان کے بعد ایس۔ایم نعمانی صاحب سے رہنمائی ملتی رہی۔ انھیں اساتذہ 

کے مفید مشوروں کا فیض ہے کہ ان کا شعری سفر ارتقائی منزلیں طے کرنے لگا ہے۔موصوف مشاعرے کے شاعر ہیں۔ترنم سے جب اپنا کلام پیش کرتے ہیں تو ایک سماں سا بندھ جاتا ہے۔ مختلف اصنافِ سخن پر ان کی تخلیقی شادابیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اب تک غزلیں‘نظمیں‘نعت‘قطعات‘برہ گیت‘ لوک گیت ‘ بھجن جیسی اصناف میں تقریباً سو کے قریب کلام کو اکٹھا کرچکے ہیں۔
مشاعرہ سننے کا شوق بچپن سے رہا ہے اور یہی شوق انھیں شعر گوئی کے زینے تک لے گیا۔ آج خود بھی ان مشاعروں کا ایک ناگزیر حصہ بن چکے ہیں اور اپنا کلام سنا کر لوگوں سے داد حاصل کررہے ہیں۔پھر سینئر ادبی دوستوں اور بزرگوں کے اصرار پر رسائل میں چھپنا شروع کیا۔ اب تک بیسوں رسائل اور اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔
غلام سرور ہاشمی صاحب ‘احمد ندیم اور سبطین پروانہؔ کٹھیاری صاحبان کو اپنا آئیڈیل شاعر اور ادیب تصور کرتے ہیں۔ان کے مشوروں پر عمل کرنا اپنے لئے خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ ایک دن وہ اپنی منزل کو پالیں گے اور خوش فکر شاعروں میں ان کا بھی شمارہونے لگے گا۔بس یہی دعا ہے اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages