Breaking

Post Top Ad

Wednesday, October 24, 2018

غزل

یہ عطا بھی ہے ساقی واہ کیا نرالی ہے
ایک جام چھلکا ہے ایک جام خالی ہے

زخم پتہ پتہ ہے درد ڈالی ڈالی ہے
اے مرے چمن آخر کون تیرا مالی ہے

پھر ترے حسیں وعدے یاد آ گئے شاید
میں نے آرزوؤں کی بھیڑ پھر لگا لی ہے

کیا مری وفاؤں کا اب لہو نہیں ملتا
تم نے اپنے ہاتھوں میں کیوں حنا لگا لی ہے

اے مری غزل تیرے ناز کون اٹھائے گا
اب نہ کوئی غالبؔ ہے اب نہ کوئی حالیؔ ہے

حرف حرف ہیرا ہے لفظ لفظ موتی ہے
ان حسین لوگوں کی بات ہی نرالی ہے

پاک باز رندوں کو اور ہم کہاں ڈھونڈھیں
مسجدیں بھی سونی ہیں مے کدہ بھی خالی ہے

رازؔ یہ غزل اپنی اک حسیں کا صدقہ ہے
شعر بھی انوکھے ہیں ہیں طرز بھی نرالی ہے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages