Breaking

Post Top Ad

Thursday, October 11, 2018

ایک نظم ایسی بھی

ایک نظم ایسی بھی

" اب اسے اذن ِ ہجرت دو "

اسکے اپنے دل کے کعبہ میں
  تین سو ساٹھ بت
ایستادہ
اہل خانہ ،احباب ،
دوست،رشتہ دار
بیوی،بچے ،روزگار
شاید کہیں کویء جگہ خالی ہوگیء
کہ اس نے اٹھاکر مجھے بھی
بت بنا کر ایستادہ کرلیا.
میں اسکے سجدوں سے
خود کو خدا سمجھ بیٹھی
کہ میرا پجاری دن رات
ستایش کے نغمے گاتا
اور
محبت کے سجدے کرتا
پتھر کے بت میں اچانک ایک دن
روح بھر آیء
بت نے محسوس کیا
سجدوں کا درمیانی وقفہ
طویل ہوتاجارہا ہے
منتظر زندہ بت اکتانے گھبرانے اور بولنے لگا
محبت کا عادی بت تقاضہ کرنے لگا
مگر پجاری کہیں اور مگن تھا
شاید کسی اور بت کی پرستش میں
پرانے سال خوردہ بت کے
سجدوں سے وہ اکتا چکا تھا .
بتوں کو پھینک دینے کا
وہ عادی نہیں تھا
کیونکہ بت اسکے دل کے کعبہ کی زینت ملکیت اور اور سامراجی تھی
مگر وہ بت کیا کرے
جس میں جان پڑچکی
اذن ہجرت چاہتا ہے
کہ کچھ پل جی سکے
زندگی کو محسوس کرسکے
جاگتی مورت حق استحقاق کا جب تقاضا کرتی ہے
تو تم اس سے منہ موڑ لیتے ہو کہ تمہیں پتھر کی مورت کو پوجنے کی عادت ہے
زندہ مورت کے تقاضے تم کیا جانو !!!!
یا تو اس میں جینے کی چاہ
نہ بھرتے
یا پھر اسے ایستادہ نہ کرتے
اب اسے اذن ہجرت دو
یا پھر کویء اسم پڑھ کر
پھر سے پتھر کی مورت بنا ڈالو

مہر افروز

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages