Breaking

Post Top Ad

Friday, November 2, 2018

دنیا کی ہر زبان کے شاعر وادیب میں فکری مماثلت

عبدالمتین جامی

موبائل۔9938905926

       
    

    دنیا کی ہر زبان کے شاعر وادیب میں فکری مماثلت 

ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان میں ہر سمت جو خوف کا ماحول طاری ہے۔ اس بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ برادرانِ وطن سے ہماری جذباتی دوری اور مذہبی غلط فہمیوں کے باعث یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔اس ملک میں ہم ایک ساتھ ہزاروں سال سے باہم زندگی بسر کرتے آرہے ہیں۔ہماری زبان‘ہماری تہذیب اور ہمارا تمدن تقریباًایک جیسا ہے۔مذہبی عقائد میں فرق کے باوجود ہمارے رہن سہن میں یکسانیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس حد تک مماثلت کے باوجود آپس میں یہ من مٹاؤ کیوں؟کیوں بات بات میں ہمارے درمیان تصادم کا ماحول بن جاتا ہے ۔تقریباً پچاس سالوں قبل بھی ہماری خورد ونوش کے سلسلے میں سوال اُٹھانے والا کوئی نہیں تھا‘ہماری عبادتوں پر نکتہ چینی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔سیاست کے میدان میں بھی ہم سب اپنی اپنی مرضی سے اپنے اپنے حکمراں کو چننے کے مجازتھے۔لیکن آج کی سیاست نے ایسی کروٹ لی ہے کہ دلوں کے درمیان شکوک وشبہات کی فصلیں اٹھنے لگی ہیں اور فضا نفرت کے زہر سے مسموم ہوتی جارہی ہے۔فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ ان نامساعد حالات میں بھی امید کی ہلکی سی کرن سے خوشی ہوتی ہے کہ آج بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں انسانیت زندہ ہے۔ ہمارے مشترکہ معاشرہ میں آج بھی کچھ ایسے روشن خیال موجود ہیں جو تما م مذہبی و معاشرتی تفرقوں سے بالاتر ہو کر ملک کی تعمیر کے متعلق سوچتے ہیں۔ بطور خاص ہر زبان کی ادبی شخصیات کی سوچ تقریباً برابرہے اور وہ سبھی امن و مان کے خواہاں ہیں۔


مگر اس کو کیا کیا جایے کہ شدت  پسند اور بنیاد پرست عناصر کی چیرہ دستیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔نتیجے میں امن پسند عوام کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا ہے۔ آخر کون سی راہ اختیار کی جایے کہ ملک میں امن واماں کی فضا استوار ہو‘ دلوں میں محبت کے چراغ روشن ہوں اور تمام ہندوستا نی مادرِ وطن کی ترقی کے لیے شانہ بشانہ چلتے ہویے اجتماعی کوشش کریں۔یہ تمام باتیں بحث طلب ہیں۔
موجودہ خوفناک ماحول کے سدِّباب کے لیے میں سمجھتا ہوں ہمارے شاعر اور ادیب تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ انھیں قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ان کے خیال میں شاعروادیب خیالی دنیا میں مست رہا کرتے ہیں۔ان سے توقعات وابستہ کرنا فضول ہے۔پھر اس برقی مواصلات کے دور میں لوگوں کے اندر مطالعہ کا ذوق بھی کم ہونے لگا ہے۔ایسے میں ان کی تخلیقات کا مطالعہ کون کرے گا۔اگر کیا بھی تو اثر کیوں لے گا۔ لیکن یہ ایک گمراہ کن تصور ہے ۔یہی وہ شاعری اور ادب ہے جس نے ماضی میں بڑے بڑے انقلابات لایے ہیں اور آئندہ بھی لاتے رہیں گے۔ اس لیے ادیبوں اور شاعروں کے انقلابی پیغامات کے نتیجہ خیز ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔میرا اپنا تجربہ بتا تا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادباء و شعرا نیز مفکرین آج کے اس دم گھٹا دینے والے ماحول سے بے زار ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم جہاں خود اپنی زبان میں تحریر کردہ کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں دوسروں کی جانب کیسے دیکھیں۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دوسری زبانوں میں تحریر کردہ کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ جو دوسری زبانوں سے ناواقف ہیں وہ ترجمہ شدہ کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور اس طرح دوسروں کی سوچ اور ان کے رجحانات کا پتہ چل سکتا ہے ۔ ناچیزکودیگر زبانوں کی شاعری اور کہانیوں میں بھی یہی بے چینی نظر آتی ہے۔وہ بھی ہماری طرح سوچتے ہیں وہ بھی عقل سے پیدل سیاست دانوں کی منفی سوچ سے نالاں ہیں۔وہ بھی حق گوئی سے کام لیتے ہیں اور اس کے ردِ عمل کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ان کی تحریروں میں جہاں انسانیت نوازی‘رواداری اور ہمدردی کے ارفع جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے وہیں مذہبی منافرت‘ فرقہ وارانہ سوچ‘ سماجی ناہمواری اورسیاسی ہتھ کنڈوں کو بھی عوام نیز قارئین کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ خود ہمارے ہی اس صوبے میں کئی ایسے قلم کار ہیں جو دوسری زبانوں کے ادب پارے کا اردو ترجمہ بحسن و خوبی کرتے رہتے ہیں۔ نیت یہ ہے کہ دونوں زبان وادب کو آمنے سامنے رکھ کر حالات کا صحیح تجزیہ کر سکیں۔اڑیسہ اردو اکاڈمی اس سلسلے میں بہت فعال نظر آنے لگی ہے۔ سہہ ماہی ادبی محاذ بھی اس کے ہم قدم ہے۔ ٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages