Breaking

Post Top Ad

Sunday, December 30, 2018

میں فکر کے صحرا میں ہوں برسوں سے رمیدہ

میں فکر کے صحرا میں ہوں برسوں سے رمیدہ 
ہر صبح مری زیست کی ہے شام گزیدہ

یہ بھی ہے عنایت مرے احباب کی جس سے
حالات نظر آتے ہیں اب مجھ سے کشیدہ 

وہ سر جو بلندی کی حدیں ناپ رہا تھا
جب وقت پڑا اس پہ تورہتا ہے خمیدہ

اب حرفِ صداقت نہ لکھا جائے گا مجھ سے
اس شہرِ ستمگر نے کیا دست بریدہ

اس ذات کی عظمت کا مظاہر ہے زمانہ
رہتے ہیں سبھی جس کی حضوری میںخمیدہ

وہ مجھ سے خفا رہتا ہے ہر وقت سعیدؔ اب
لکھتا نہیں میں اس کے لیے کوئی قصیدہ
سعید رحمانی

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages