Breaking

Post Top Ad

Monday, January 28, 2019

یٰسین راہیؔ…نئی راہوں کامتلاشی

یٰسین راہیؔ…نئی راہوں کامتلاشی


غزل کا کینواس اتنا کشادہ اور وسیع ہے کہ سالہا سال سے اس پر رنگ چھڑکے جانے کے باوجود اب بھی اتنی گنجائش ہے کہ اس پر مزید رنگ چھڑکے جاسکتے ہیں ۔ہر دور میں غزل کا رنگ بدلتا رہا نئے نئے موضوعات و مضامین اس میں سموئے جاتے رہے اورغزل بڑی خندہ پیشانی سے انہیں اپنے دامن میں سمیٹتی رہی ،اس طرح غزل کے حسن میں اضافہ ہوتا چلا گیااورآج غزل پور ی آب و تاب کے ساتھ ہر طرف اپنے جلوے بکھیر رہی ہے اور ایک زمانہ اس کا دیوانہ ہے ،اس کے باوجودراہی ؔ صاحب کہتے ہیں کہ   ؎
سامنے آسمان باقی ہے

چل پرندے اڑان باقی ہے 
یعنی غزل کے دامن کو اور بھی پھیلایا جاسکتا ہے اور یہی کوشش راہی ؔصاحب نے اپنے اس زیر نظر شعری مجموعہ میں کی ہے 
راہی ؔ صاحب ایک معلم ہیں اورقابل قدر بات یہ کہ ایک دیانت دار معلم میں جن خوبیوں اور اوصاف کاہونا لازمی ہے وہ تمام خوبیاں اور اوصاف آپ میں موجود ہی نہیں بلکہ آپ کی زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔اپنے علم کو اپنے طلبا میں بانٹ کر انہیںجو قلبی و روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے اس کا اظہاروہ اس طرح کرتے ہیں   
ہے تمنا کہ خود کو دنیا میں 

چھاؤں دیتا ہوا شجر دیکھوں

اور یہ جذبہ ان کی فطرت میں ڈھل گیا ہے ،یہی سبب ہے کہ ان کی شاعر ی 
میں اصلاحی رنگ نمایاں نظر آتا ہے کہتے ہیں  ؎
قد کو اونچا بہت کریں لیکن

پاؤں اپنے زمین پر رکھیں
تن کی آنکھیں کھولی ہیں 

من کی آنکھیں کھول کبھی 
درختوں پہ میٹھے ثمر خود لگیں گے

صداقت کا پودا لگاکر تو دیکھو
اس پاکیزہ فطرت کے ساتھ آپ ایک شفاف شخصیت کے مالک ہیں ،نہ خود نمائی نہ خود ستائی ،نہایت شریف النفس اور وضع دار ،ظاہر و باطن ایک۔آج کے اس نمائشی دور میں جب کہ لوگ اپنے چہرے پر کئی چہرے لگائے پھرتے ہیں جس سے ان کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں راہی ؔ صاحب جیسے لوگ ہزاروں میں بہ آسانی پہچانے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی چہرہ رکھتے ہیں،انہیں کا ایک شعر ہے   ؎
مجھ کو پانا سہل ہے لوگو 

ایک ہی چہرہ رکھتا ہوں
شاعر کو ملک وقوم کا معمار مانا جاتا ہے اس کے قلم میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اچھے اچھوں کے سر جھکا دیتی ہے ،وہ جہاں گل و بلبل کی باتیں کرتا ہے وہیں سنگ و خشت کا بھی ذکر کرتا ہے ،بدلتے موسموں کے ساتھ زندگی میں آنے والے نشیب و فراز کو جہاں وہ اپنا موـضوع سخن بناتا ہے وہیں معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعنوانیوں کو بھی اپنے اشعار میں پیش کرتا ہے،شاعر حق بات کہتے ہوئے کبھی نہیں ڈرتا   ؎
بیج کڑوے تھے اس لئے شاید

کو ئی میٹھا ثمر نہیں آیا
تمہیں جھوٹ کہنے کی طاقت بہت ہو

مجھے جھوٹ سہنے کی ہمت نہیں ہے 
تپش سورج کی وہ کیسے سہے گا

بدن جو چاندنی میں جل رہا ہے 
توبہ کرتے ہیں جھوٹ سے خود ہی

خود ہی ڈرتے ہیں سچ بتانے سے
راہی ؔ صاحب کے کلام میں ایک تازہ کاری ملتی ہے مضامین کے اعتبار سے بھی اور اظہار کے اعتبار سے بھی ، عام فہم و سلیس زبان میں گہری باتیںبڑی 
آسانی سے کہہ جاتے ہیں، وہ اپنے مشاہدے کو اس خوبصورتی سے ایسے سہل انداز میںپیش کرتے ہیں کہ اسے قاری یا سامع بہ آسانی سمجھ لے اور یہ ہنر بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتاہے ۔ان کی شاعری کا ایک اہم وصف بے ساختگی ہے آپ ان کی کوئی بھی غزل پڑھ لیں محسوس ہوگا کہ بے ساختہ طور پر کہی گئی ہے ،تصنوع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوگا۔ اس دور میں جب کہ دس شاعروں کی الگ الگ غزلیںبغیر مقطع کے پڑھی جائیں تو ایک ہی شاعرکی لگیں اپنی الگ شناخت بنانا آسان کام نہیں ۔راہیؔ صاحب اپنی خداداد فنی صلاحیت کی بنیاد پر اپنی منفرد پہچان بنانے کے لئے نئے زاوئیے تراش رہے ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ  ’’قطرہ قطرہ دریا دیکھوں‘‘ ہے جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اوراس دوسرے زیر نظر مجموعہ’’گلاب لہجہ ‘‘سے بھی یہی توقع رکھی جاسکتی ہے ۔چند منتخب اشعا ر ملاحظہ کریں جن سے ان کی بلندی فکر،لب و لہجے کی شائستگی اور اظہار و بیان کی ندرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چھبن کانٹوں کی جو ہم نے سہی ہے

ہمارے سر کا سہرا جانتا ہے 
ِذہن سنّاٹا اوڑھے سو رہا ہے

دل کی خبروں میں سنسنی کم ہے
ہماری گفتگو تو خوشبوؤں میں ڈوبی ہے

ہمارا طرز تکلم گلاب جیسا ہے 
جتنی خاموشیاں ہیں سب مل کر

خوب کرتی ہیں گفتگو ہم سے
بٹھاا کر صحن میں جب پیار سے اماں کھلاتی ہے 
گگن پر دور بچے کے لئے چندا نکلتا ہے 
   منیراحمدجامی
مدیر روزنامہ سیاست بنگلورو

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages