Breaking

Post Top Ad

Thursday, February 14, 2019

افسانہ

سودا

(محمد علیم اسماعیل)(8275047415)

میں روشنی سے جدا ہونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں اسے چاہتا تھا۔لیکن وہ کسی اور کو۔یہ مجھے منظور نہیں تھا کہ اس کا جسم میرے ساتھ رہے اور روح کہیں اور۔میں اسے مکمل طور سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔نہیں تو، پھر کچھ نہیں۔
شادی کی پہلی رات،میں بے حد خوش تھا۔
اور اس نے میرے ہاتھوں کو جھٹکا دیتے ہوئے کہہ دیا،خبردار جو مجھے ہاتھ لگایا تو۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔اور حیرت سے پوچھا،کیوں؟
اس نے کہا،میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں۔
وہ میری زندگی کی روشن رات اچانک سیاہ ترین ہو گئی۔مین نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جن آنکھوں میں قوسِ قزح کے رنگ گردش کر رہے تھے وہ یک بیک اندھی ہو جائیں گی۔میں ذہنی کرب و کسک کے بھنور میں پھنس چکا تھا۔بھوچک ہو چکا تھا۔تیز نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔پھر ترش لہجے میں سوال کیا،اور یہ شادی؟
اس نے کہا،میرے بابا جی نے زبردستی کی ہے۔
اور میں نے بھڑک کر کہا،یہ تو تمہیں پہلے ہی سوچنا چاہیے تھا۔
اس نے قسمت کو کوستے ہوئے سر پکڑ لیا۔ اور دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئی روتے ہوئے گڑگڑانے لگی کہ میں اسے اس کے عاشق سے ملا دوں۔
رات کی لرزہ خیز خاموشی میں سرسراتی ہوئی سرد ہوا سے دونوں کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔سینا لمبی لمبی سانسوں سے پھول رہا تھا۔جیسے کوئی پرندہ اپنے آخری وقت میں پھڑپھڑا رہا ہو۔
کچھ سمجھ نہیں آیا،میں روؤں یا ہنسوں یا چیخ چیخ کر فرش سے عرش تک ہلچل مچا دوں۔
مجھے”ہم دل دے چکے صنم“فلم یاد آ گئی اور میں نے ایثار و فراخ دلی دکھاتے ہوئے اس کی فرمائش قبول کر لی۔یہ سوچ کر کہ ہماری کہانی کا اختتام بھی فلم جیسا ہی ہوگا۔اور وہ آخر میں مجھ سے محبت کر بیٹھے گی۔میں ساتویں پسلی کو قوت سے نہیں حکمت سے سیدھا کرنا چاہتا تھا۔
میں اس کے محبوب کی چھان بین میں جٹ گیا۔حسبِ منصوبہ روزانہ صبح گھر سے نکلتا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر شام کو واپس لوٹتا۔دن بھر تلاش و جستجو میں چور چور ہو جاتا۔ہمت جواب دے جاتی لیکن دوسرے روز پھر سے تازہ دم ہو کر منہ اندھیرے ہی گھر چھوڑ دیتا۔
ایک روز وہ اداس بیٹھی ہوئی تھی۔میں گھر میں داخل ہوا اور وہ ٹھٹھک گئی۔میری جانب اس طرح دیکھنے لگی جیسے سارے جہاں کی خوشیاں اس کے قدموں تلے سمٹ آئی تھیں۔دوڑتی ہوئی میرے قریب آئی اور بانہوں میں جھول گئی۔محبت بھرے انداز سے کہنے لگی،اب مجھے چھوڑ کر مت جانا۔میں سمجھ گیا اس کے تصّور میں کون ہے۔اس کے گلے لگتے ہی میرے سینے میں سرور بخش لہریں دوڑ پڑیں۔وہ لپٹی تو مجھ سے تھی پر تصّور میں کوئی اور تھا۔پھر یکا یک بجلی کی رفتار سے جدا ہوئی اور کہنے لگی،دیکھو تم میرے قریب مت آنا۔
اس کے عاشق کے متعلق میں صرف اتنا جانتا تھا کہ اس کا نام راہل ہے۔اور وہ اس کے ساتھ پونہ میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کرتا تھا۔وہاں سے ہی دونوں ایک دوسرے کے رابطے میں آئے تھے۔
راہل کی کھوج کرتے کرتے ہمت جواب دے چکی تھی۔لیکن ایک روز کنواں پیاسے کے پاس آگیا۔منزل نے خود مسافر کا پتہ پوچھا لیا۔اچانک میری راہل سے ملاقات ہو گئی۔دراصل وہ خود مجھ سے آکر ملا تھا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ تھما کر نکل گیا۔جس پر اس کی آفس کا پتہ درج تھا۔
میں دو ہفتوں تک اس کی انکوائری کرتا رہا۔پھر وہ حقیقت سامنے آئی  کہ پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔وہ جسم فروشی کے بازار کا دلّا تھا۔نئے زمانے کا نیا دلال جو اپنی پرسنالٹی کے بل بوتے لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانستا، بڑی بڑی ہوٹلوں میں، پارٹیوں میں لے جاتا، ڈرنکس میں نشیلی دوا ڈال کر بے ہوش کرتا اور حوس کے درندوں کے حوالے کر دیتا۔
دو ہفتوں بعد میں اس کے آفس گیا۔وہ موبائل پر کسی سے لین دین کی بات چیت کر رہا تھا۔اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میں بیٹھ گیا۔اب وہ میرے بالکل سامنے بیٹھا تھا اور میں اس کے سامنے۔
بات ختم کرتے ہی وہ گویا ہوا’’اچھا تو سمیر صاحب،روشنی کے شوہر۔بھائی رومانس ہم نے کیا اور مصیبت آپ کے گلے پڑ گئی۔جب ملو تب شادی کی ہی باتیں کرتی تھی،کب آرہے ہو میرے گھر رشتہ لے کر،مجھے لڑکے والے دیکھنے آئے تھے،ابو شادی کے لیے پریشرائز کر رہے ہیں۔لیکن میری بہانے بازی و اداکاری کام آئی اور جان چھوٹی۔‘‘
میں نے تلوار کھینچی اور اس کے سینے کے پار کردی۔پھر اسی تلوار سے اس کی گردن ماردی۔بنا سر کا دھڑ زمین پر ٹانگیں رگڑ رہا تھا۔اور بنا دھڑ کا سر بغیر پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔میں نے تلوار پر لگا خون اپنے جسم سے پوچھ کر تلوار ہوا میں اچھال دی۔قدر توقف اس کا جسم ٹھنڈا ہو گیا۔اور میں دھیرے دھیرے مسکرانے لگا۔مسکراہٹ قہقہوں میں تبدیل ہو گئی۔جس کی آواز سماعتوں کو ناگوار گزرنے لگی۔میں نے دیکھا وہ میرے سامنے کھڑا ہنس رہا تھا۔جاگتی آنکھوں کے خواب میں وہ تلوار کی موت مر چکا تھا۔میں کچھ دیر تک اسے گھورتا رہا۔پھر کہا’’اسے بھول جاو۔‘‘
’’یاد ہی کب کیا تھا جو بھول جاوں۔‘‘وہ پھر ہنسنے لگا۔میں من ہی من سوچنے لگا ’’ یہ میں کیا پاگل باتیں کر رہا ہوں۔روشنی کا دیوانہ وہ نہیں، میں ہوں۔‘‘
میں نے کھنکار کر کہا’’میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن وہ تمہاری دیوانی ہے۔جبکہ تم اس سے پیار نہیں کرتے۔تم اسے اپنی حقیقت بتادو۔‘‘
’’ابے مجھے کیا پاگل کتّے نے کانٹا ہے۔‘‘
’’نہیں تو میں بتا دوں گا۔‘‘
’’یقین نہیں کرے گی۔‘‘
’’پھر تم کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’وہ میری دیوانی ہے تو اسے مجھے سونپ دو۔تمھیں بھی اچھے خاصے روپے مل جائیں گے۔ہمارے ساتھ کام کرو خوب کماوگے۔‘‘
ٹیبل پر ہاتھ پٹخ کر میں نے چلایا ’’تمہاری طرح کسی کے یقین و اعتماد کا خون کر کے دولت کمانا مجھے منظور نہیں۔‘‘
میں وہاں سے گھر چلا آیا۔اس کی ایک ایک حقیقت میں نے روشنی کو بتائی کہ وہ لڑکا بہت بڑا فراڈ ہے۔ لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسانا پھر انھیں جسم فروشی کے بازار میں بیچ دینا اس کا پیشہ ہے۔
اسے میری باتوں کا یقین نہیں آیا۔ وہ سمجھ رہی تھی میں کوئی چال چل رہا ہوں،اسے حاصل کرنے کے لیے۔
میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا لیکن وہ کسی صورت ماننے کو تیار ہی نہ تھی۔
آخر اس کی ضد کے آگے میں ہار گیا۔اور اسے راہل سے ملانے کا فیصلہ کر لیا۔
شہر کی ایک مشہور ہوٹل میں ملنا طے ہوا۔ہوٹل میں روشنی راہل سے ملی اور مجھ سے جدا ہو گیی۔
علیحدگی کا درد سینے میں اچھالے مار رہا تھا۔کرب انگیز کیفیت سے طبیعت مضطرب ہو گئی تھی۔اس کے ساتھ بیتے پل پل کے ذہنی نقشے بھاگتی فلم کی طرح بڑی تیزی سے ابھر رہے تھے۔ اور میں ذہنی اختلال میں مبتلا ہونے کے قریب تھا۔
جب میں اسے راہل کے پاس چھوڑ کر ہوٹل سے باہر نکلا تو میرے ہاتھ میں پیسوں سے بھرا سوٹ کیس تھا۔
اور میرے ذہن میں ابھی ہوٹل کے اندر کا وہ منظر تازہ تھا جب میں راہل سے سودا کر رہا تھا۔
’’کتنے ملے گے؟‘‘
’’دو پیٹی۔‘‘
’’نہیں، چار سے کم میں نہیں دوں گا۔‘‘
میں راستے پر چل رہا تھا۔قدم قدم روشنی سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ذہن کے پردوں پر سودے بازی کا وہ منظر گردش کررہا تھا اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages