Breaking

Post Top Ad

Sunday, February 10, 2019

سفید پرچم

..

                افســـــــانہ

      صـــــــــــادق اســـــــــــد
مالیــــــ گاؤں  انڈیا
    
  سفیــــــــد پرچــــــــم

ہرا پرچم لہراتے ہی،  نقاروں کے ساتھ میدان کے اطراف فصیلوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا دل دہلا دینے والا شور جب قلعے کے باہر پہنچا، تو درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے خوف کے مارے فضا میں اڑنے لگے، شور بڑھتا گیا، میدان کی سمت کھلنے والی گپھا سے چند گھڑ سوار نمودار ہوئے، اور گرد اڑاتے ہوئے، میدان کا چکر کاٹنے لگے، میدان کے درمیان سفید رنگ سے دو لکیریں کھینچی گئی تھیں،پہلی لکیر کے اِس طرف میں اورمیری بستی کے کچھ نوجوان .......اور دوسری لکیر کے اس طرف گھڑسوار باری باری آ کر کھڑے ہونے لگے، گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی دھول ہمارے چہروں پر جمنے لگی، گذشتہ سال جب اسی میدان سے کچھ لاشیں بستی پہنچیں، اور جب انہیں نہلا یا جا رہا تھا،  تو تنہا اداس بیٹھے ہوئے میں نے اپنے اپاہیج بابا سے پوچھا تھا،  "یہ موت کا کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے ــ "؟ میرے بابا نے میری طرف غور سے دیکھا، تب میں نے ان کی آنکھوں میں خراب راستے کی طویل مسافت جھیلنے والے، مسافر کی سی تھکن محسوس کی تھی ـــ اور پھر میرے بابا کہنے لگے ــ " ہم برسوں سے جنگل میں رہتے آئے ہیں ، اسی لئے ہمیں بیابانی( آدی واسی ) کہا جاتا ہے،  جب ریاست آزاد ہوئی، تو حاکم، اور شہر کے  امیروں، نوابوں کے بچے شکار کے لیے جنگلوں کا رخ کرتے تھے ــ ایک مرتبہ شکار کرتے ہوئے دو امیروں  کے بچے مارے گئے تھے، اور حاکم کا بیٹا زخمی ہوا تھا، تو اس وقت کے حاکم نے امیر زادوں کے شوق کو پورا کرنے کے لیے قلعے کے میدان کا انتخاب کیا، پہلے پہل تو جانوروں کو کھلا چھوڑ کر ان کا شکار کیا جاتا رہا، اور تماشائیوں کو بلوا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ـــ مگر جب زخمی جانور پلٹ کر ان پر حملہ کرنے لگے تو امیروں کے کلیجے پھٹنے لگے ــ اور وہ سر جوڑ کربیٹھ گئے،  پھر کچھ دنوں بعد ہماری بستی کے وہ لوگ جن کی اولادیں نہیں تھیں ــ ہر گھر میں جاکر حا کم کے فیصلے سے آگاہ کرنے لگے، اور غریب لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر تے،   کہ شروع میں سرخ پرچم لہرا جائے گا، اور ہمارے بچوں کو آگے بھاگنے دیا جائے گا، اور تیر ختم  ہوتے ہی سفید پرچم لہرا دیا جائے گا، یعنی تماشا ختم .......اور کچھ اس طرح سمجھاتے،  کہ شکاری صرف اس وقت تک حملہ کریں گے جب تک ان کے ترکش میں تیر رہیں گے،  اور اگر ہمارے بچے تیروں سے بچ جاتے ہیں، تو انہیں بہادری کے خطاب سے نوازا جائیگا ـــ اور ساتھ میں بہت سارا انعام بھی  دیا جائیگا، غریب بے سہارا مجبور پریشان لوگ، جب کسی لالچ میں نہ آئے تو انھیں ڈرایا گیا، کہ ان کے بچوں پر کوئی بھی الزام لگا کر پہلے جیل میں ڈالا جائے گا، اور پھر سزا کے طور پر انھیں قلعے کے میدان میں مار دیا جائے گا، جب یہ بات لوگوں کو پتہ چلی تو خوف کے مارے کچھ نوجوان جو پہلے ہی بے روز گار تھے، آگے آئے،  .....اور پھر  نوجوان اس لئے قتل ہونے لگے، کہ ان کے غریب ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن سکھ کی زندگی گزار سکیں، اور کچھ لوگ اس لئے اس کھیل کا حصہ بننے لگے، کہ بچ گئے تو بہادری کے خظاب سے نوازیں جائیں گے، اور شہر بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے، دھیرے دھیرے یہ امیر نوجوانوں کا شوق اتنا مقبول ہوا کہ ریاست بھر سے لوگ اس کھیل کو دیکھنے کے لئے آنے لگے، اور قلعے کی فصیلیں ہجومیوں سے بھر جانے لگیں،"
  بابا چپ ہوگئے، اور ڈوبتے سورج کے اطراف پھیلی سرخیاں دیکھنے لگے ـــ  میں وہاں سے اٹھ کر ایک سمت چل پڑا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا،  کہ اب بابا کو چھوٹی بہنوں کی فکر نہیں ستائے گی"-
اب ہرا پرچم لہرانے والے سپاہی کے ہاتھ میں سرخ پرچم تھا، جو بغیر پلک جھپکائے حاکم کے اشارے کا منتظر تھا ــ گھڑ سواروں  نے کمانیں نکال کر تیر چلوں پر چڑھا لیا،  سارے مجمع پر رقّت طاری ہو گئی، اور پھر سرخ پرچم کھینچ لیا گیا ــ ہم سیدھا بھاگنے لگے ، اور کچھ دور بھاگ کر بکھر گئے مجھے میری فکر تھی،  اور میں تیزی سے بھاگتا ہوا تیروں کی حدوں سے دور نکل جانا چاہتا تھا ــ تیروں کو چھوڑا جا چکا تھا، ہم پہلے ہی بکھر چکے تھے، اس حملے میں کوئی بھی تیر کی زد میں نہ آیا، اور سواروں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی، اور تیزی سے تیر کھینچتے ہوئے ہماری طرف بڑھے، اس بار ایک تیر ایک نوجوان کی پشت کو چیر کر سینے سے نکل آیا،  اور دوسرا  تیر، دوسرے نوجوان کی گردن میں جاگھسا، وہ دونوں زمین پر گر پڑے،  میں کبھی دائیں ہوتا اور کبھی بائیں ہو کر بھاگتا رہا ــ ایک تیر میرے کان کے قریب سے سنسناتا ہوا گزرا اور میں نے اپنے سر کو دوسری طرف جھٹکا دیا اور بھاگتا رہا فصیلوں پر بیٹھے ہوئے لوگ آنکھیں پھاڑے موت کا تماشہ دیکھ رہے تھے ــ تیر برستا رہا، اور میرے ساتھی زمین پر ٹپ ٹپ گرتے رہے ــ
اب سامنے بڑی دیوار تھی اور پیچھے گھڑسوار میں نے دائیں طرف دیکھا، تو دو نوجوان کافی فاصلے سے بھاگے جا رہے تھے ــ تبھی مَرے ہوئے نوجوان پر ایک گھوڑے کا پیر پڑتے ہی گھوڑا بدک پڑا اور ایک دوسری سمت بھاگنے لگا ــ  گھوڑے کے بدکتے ہی چھوٹتی ہوئی کمان کو پکڑنے کی کوشش میں گھڑ سوار ایک طرف ڈھلک گیا ــ اور اس کا پاؤں رکاب میں پھنسا رہا، کھوڑا  اسے گھسیٹے جا رہا تھا ــ کچھ گھڑسوار اسے بچانے کے لئے گھوڑے کے پیچھے گئے، اور مجھے واپس مڑنے کا موقع مل گیاــ کچھ دیر بعد سارے گھڑسوار، اسے ہی بچانے کے لئے دوڑ ے شاید وہ حا کم کا بیٹا تھا،  اور پھر ان کے گھوڑے آپس میں گتھم گتھا ہونے کے سبب کچھ کے ترکش گر پڑے اور کچھ سوار اپنے ہی گھوڑوں کے بیچ آکر  زخمی ہونے لگے  ــ میں اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو سمیٹنے لگا ــ  اور وہ نوجوان میرے قریب آکر ہانپنےلگے ــ سوار زخمیوں کو چھوڑ کر ہمارے سمت آنے لگے.ــ  ان کی تیز رفتاری سے معلوم ہو رہا تھا، کہ وہ بہت بپھرے ہوئے ہیں،  اور ان کے ہاتھوں میں نیزے دکھائی دے رہے ہیں ــ اور میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے پاس تیر ختم ہو چکے ہیں ــ میں اسی سوچ میں تھا، کہ ایک تیر بہت تیزی سے آیا،  پھر ...... ہم صرف دو بچے اور  سوار چار میں بہت تیزی سے سیدھی طرف بھاگا ...اور میرا ساتھی بائیں طرف مڑ گیا، تین سوار اسے گھیرنے لگے،  وہ بہت غصے میں تھے، ایک سوار نے کافی فاصلے سے نیزہ پھینکا ــ میرا ساتھی ایک طرف ہو لیا،  اور نیزہ زمین میں جا دھنسا، میرے ساتھی نے فورا نیزہ زمین سے کھینچ لیا، اور سیدھا ہو گیا ــ دوسرے گھڑسوار نے قریب آکر  نیزے سے  وار کیا،اور اس نے اٹھائے ہوئے نیزے سے سوار کے وار کو روک لیا ــ میرے ساتھی کے نیزے کا جھٹکا اتنا شدید تھا ـ کہ
سوار کے ہاتھ سے نیزہ چھوٹ گیا اور اس نے فورا تلوار نکال لی، ایک سوار میرے پیچھے نیزہ لئے سرپٹ دوڑ رہا تھا ــ
یکایک فصیلوں سے شور اٹھنے لگا ــ اور شور بڑھتا گیا،
اس شور میں اتنا سنائی دے رہا تھا ــ "اب بند کرو یہ ظلم ہے، اصول کے خلاف ہے، یہ ظلم ہے ظلم ہے " .....
تب مجھے خیال آیا کہ اب تک سفید پرچم لہرا دیا جانا چاہیے تھا  ـــــــــــ

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages