بے گناہی کا میں اظہار کروں یا نہ کروں
سوچتا ہوں رخِ دربار کروں یا نہ کروں
وہ بھی ہو سکتا ہے بدنام مرے نام کے ساتھ
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
میرا دشمن مرے گھر آیا ہے دعوت دینے
کشمکش میں ہوں کہ انکار کروں یا نہ کروں
جس کی فطرت میں ریاکاری رہی ہے شامل
ایسے انسان کو میں یار کروں یا نہ کروں
پھر بھی بدنام ہوا جاتا ہوں مصباحؔ صاحب
میں کسی شخص سے تکرار کروں یا نہ کروں
مفتاح اعظمی(ہگلی)
No comments:
Post a Comment