Breaking

Post Top Ad

Monday, October 21, 2019

قول فیضیؔ مصرع کہ فقرہ

قول فیضیؔ   مصرع کہ فقرہ


کتاب نما دہلی کے شماروں میں ایک عالمانہ بحث چھڑی تھی۔بعدمیں چل کریہ بحث نہ صرف طفلانہ پچکانہ رہی بلکہ جاہلانہ بھی رہی ۔بحث کاآغاز اس ماہنامہ کے شمارے اگست 1993ء میں شائع ہوئے ایک مضمون بہ عنوان فیضی کاایک مقولہ ازڈاکٹر اوم پرکاش اگروال زارعلامی سے ہوا پھرکتاب نما دہلی شمارہ ستمبر1993ء میں ڈاکٹر کمال احمدصدیقی کامضمون عروض معروض اشاعت ہوا۔جوزارعلامی کے متذکرہ مضمون پرجوابی طور سے لکھاگیاتھا اس بحث میں شمس الرحمان فاروقی بھی شامل ہوئے ان کا مضمون سخن فہمی علامی وشاگردان علامی "(یہ مصرع ہے)"کتاب نما کے شمارہ اکٹوبر 1993ء میں شائع ہوا۔
ظاہر ہے ان حضرات میں کوئی بھی نام چھوٹا نہیں تھا۔ہرایک اپنے میدان کاپہلوان ہی تھا یہ لوگ اپنی ذہانت اورعمیق وبسیط مطالعہ کاوافرثبوت فراہم کرسکتے تھے۔وہیں عصری تقاضوں کے پیش نظر فنی مباحث لاسکتے تھے ان حضرات سے بجا طورپر توقع کی جاسکتی تھی۔لیکن افسوس کہ ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا۔بات کہیں سے نکلی تھی یہ مت پوچھئے کہ کہاں تک پہنچی ۔کہاں پہنچی،یہ کہنے میں ذرابھی عارنہیں ہوناچاہئے کہ اس میں سے کوئی بھی اپنے موقوف پرنہیں رہا۔آغاز بحث جس سنجیدگی سے ہوئی تھی آخرتک برقرارنہیں رہ سکی۔
بات یہ تھی کہ کوئی اس مقولہ کو مصرع کہہ کرتقطیع وموزوں کرنے کی کوشش کی توکچھ لوگ نثرکافقرہ کہنے پر مصررہے یہ بحث الگ کہ کون صحیح ہے اورکون غلط ۔گوپی چندنارنگ جیسے لوگ صرف اتناکہہ کرخاموشی اختیارکرلیے اسمیںسے کوئی ایک صحیح ہوسکتاہے دونوں توصحیح نہیں ہوسکتے۔"
زارعلامی کامقصودیہاں اس مقولے کوتقطیع کرکے موزوں ثابت کرناتھا جسے وہ تین اوزان حقیقی اوردوبحروں میں قطع کرنے کی کوشش کی تھی۔موصوف کامقصد یہ نہیں تھا کہ اس کی یہ پرکھ ہوکہ یہ مصرع ہے یا نثری فقرہ یاجملہ
بات وہاں بگڑی جب یہ ناک کا سوال بن گئی ہرکوئی اپنی بات صحیح گردانتے پرتل گئے۔کچھ دیر تویوں لگنے لگاتھاکہ یہ سب جھگڑے پراترآئے سائشتہ الفاظ میں گالی گلوچ بھی چلنے لگی۔ناشناساے عروض کم شائستہ ۔ناسنجیدہ،نام نہاد عروضی۔شاخدارمطلق،حضرت علامہ،اسقا ط حمل کے بعد مردہ بچہ کے ناموں سے بحث کرنے والا، رستم عروض، ساحرعروض،عروض ناخواندہ وغیرہ جیسے القاب ایک دوسرے کونوازے جانے لگے۔
ادب میں کوئی بھی بحث معقول استدلال طرزپرہوناچاہئے اختلاف رائے ہوسکتی ہے اور ہونابھی چاہئے قیاس یاتاویلات دینے سے عروض میں بات نہیں بنتی،مسلمہ قوانین کے تحت پرکھ کردیکھناپڑتاہے عروضی توعروضی عام قاری بھی موقف کوسمجھ جائے گا۔عیب جوئی یاایک دوسرے کونیچادکھانا مقصود نہ ہو ۔اس سے علم وادب کوکوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔اورایسے مبحث تضیع اوقات کے سوا اورکیاہوسکتے ہیں ۔کیا یہ باتیں ان ذی فہم حضرات کوبتانے کی ضرورت ہے؟
اس تنازعہ سے ان لوگوں کوکہنے کا موقع ضرورملا  جوہمیشہ کہتے رہتے ہیں ایک کتاب پڑھنے کے دوران میں کچھ اس طرح کے جملے پڑھنے کوملے (اس بحث سے یہ صادق بھی آتے ہیں)کہ کوئی بھی عروضی دوسرے سے اتفاق نہیں کرتاہے اختلاف اورعیب جوئی ان کا عین مسلک رہاہے ایجادواختراع کواپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
اصولاً جوبات کی جاتی ہے وہ کسی کی بھی ہو مان لینے میں کوئی حرج نہیں 
ہونی چاہئے۔اس سے پہلے کہ بحث کوآگے بڑھایاجائے یہ دیکھاجائے وہ مصرع نما مقولہ کیاہے
؎سخن فہمیِ عالم بالامعلوم شد 
یہ مصرع ہے توسوال ایک یہ بھی اٹھتاہے کہ کونسا مصرع؟ مصرع اولیٰ یا مصرعِ ثانی؟    یاکسی نظم کے ٹیپ کامصرع؟ یہ مصرع ہے تو کس شعرکا؟یہ بات ظاہرہے کہ مصرع کوکسی نہ کسی شعرسے ہونالازمی ہے وہ شعرفرد بھی ہوسکتاہے کسی مصرع کوہم فرد تونہیں کہہ سکتے۔
یہ نثری مقولہ ہے تو اس کی صحیح نہج سے تحقیق ہونی چاہئے۔اس کی لسانی ونحوی حقیقت کی تحقیق ہونی چاہئے۔اس کے ادبی وفنی پہلوؤں پر بحث ہونی چاہئے۔یہ اس نثر کاٹکڑابھی ہوسکتاہے جسے نثری اصطلاح میں مرجز کہتے ہیں (ایک ایسی نثرجس میں  وزن کاالتزام ہوتاہے،) مرصع یامسجع نثرکاجملہ بھی ہوسکتاہے۔
فاروقی صاحب اس فقرے کومستند لوگوں کے حوالے سے تین طرح لکھاہے۔
(الف)سخن فہمیِ عالم بالامعلوم شد 
(ب)قدردانی عالم بالامعلوم شد 
(ج)شعر فہمیِ عالم بالامعلوم شد 
جملہ مضامین کے مطالعہ سے جوبات سامنے آئی۔وہ یہ تھی  اس جملے کی تقطیع کرکے دیکھاجائے کہ یہ موزوں ہے یانہیں زارعلامی نے ایک اچھی کوشش کی ۔کمال صاحب ان کے ایک ایسے وزن کو لے کر برس پڑے اورغلط درغلط مضمون تحریرکیے۔شمس الرحمان فاروقی نے بھی اس وزن کو غیرحقیقی قراردیا لیکن وہ بھی صحیح  محاکمہ پیش نہیں کرسکے۔
فیضی کے اس مقولے کو عروضی اعتبار سے پرکھیں یا پھراسے نثری یاجملہ قراردیں اس سے پہلے یہ حقیقت بھی جان لیں کہ ایسےبہت سے جملے پڑھنے اورسننے میں آتے ہیں جوکسی نہ کسی وزن میں بھی تقطیع ہوسکتے ہیں یادرہے کہ ہرلفظ اپنے اندر ایک وزن رکھتاہی ہے اس کے باوجود بھی ہم ان جملوں وفقروں کومحض اس لیے شاعری کی تعریف یامفہوم میں نہیں لے سکتے۔چونکہ شاعری اوزان کے علاوہ کچھ اورتقاضہ بھی کرتی ہے۔
کسی مصرع کوموزوں ہوتے ہوئے بھی پورے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہاجاسکتاہے کہ یہ مصرع ہے۔ایک مصرع کی حقیقت ہی کیاہے کسی ایک مصرعے کوشاعری کہاجائے تو نثرکاہرجملہ کسی نہ کسی وزن میں تُلتاہے تواس طرح سے پوری کی پوری نثرشاعری ہی کے زمرے میں ہوئی ۔مصرع تومصرع ہے کبھی کبھی شعر کے وزن کوتعین کرنے میں یہ مشکلیں پیش آتی ہیں کہ یہ کس بحر کے وزن میں ہے اس کی ہرصحیح پرکھ کے لیے اس شعر کی غزل یانظم کے دیگر اشعار کوبھی غورکر کے دیکھناہوتاہے۔
مثلاً یہ مصرع؛ کوئی تڑپ تڑپ اٹھا۔کوئی ترس ترس گیا۔(خودساختہ)
یہ مصرع جس وزن میں قطع ہوتاہے وہ یہ ہے۔مفاعلن، مفاعلن، مفاعلن، مفاعلن، 
یہ وزن دوبحروں سے حاصل کیاجاسکتاہے۔بحررجز سے بہ ذریعہ زحاف خبن سے حاصل ہوتاہے ۔جس کا اصطلاحی نام بحررجزمثمن مخبون  جمیع الاجزاء۔  
یہی وزن بحرہزج  بہ ذریعہ زحاف قبض سے بھی حاصل ہوتاہے۔اس کااصطلاحی نام ہوگا۔بحرہزج مثمن مقبوض جمیع لاجزاء۔
یہ ماناہوا کلیہ ہے کہ ہربحرکے ساتھ اس کے ہی مخصوص رعایتیں بھی ہوتی ہیں اگریہ وزن بحررجزسے حاصل کیاگیاہےتو اس کے فروع مفاعلن (مخبون )مفتعلن(مطوی)اورمفعولن(مطوی مسکن)کوایک دوسرے کی جگہ  بلاکراہت لایاجاسکتاہے۔اوراگریہ وزن بحر ہزج سے محصول کرلیاجائے تواس کے فروع مفاعلن،مفاعیل کوایک دوسرے کی جگہ لایاجانا جائزہوتاہے۔ایک میں یعنی بحررجز کے ارکان میں تسکین کاعمل کارفرما ہے اوردوسرے بحرہزج کے ارکان 
میں تخنیق کاعمل۔
محولہ مندرجہ بالا مصرع کس بحر کے وزن میں ہے تعین کرنے کے لیے ہمیں چاہئے کہ اس کا دوسرا مصرع بھی دیکھیں۔
؎تیری نگاہِ ناز سے ہرایک دل گھائل ہے
اسکاوزن ہے  مفاعلن،مفاعلن،مفاعلن،مفعولن
لہٰذا یہ معلوم ہواکہ اس وزن میں عمل معاقبہ کے تحت رعایت کافائدہ اٹھایاگیا ہے اس طرح یہ شعر بحررجزمثمن کے مزاحف وزن میں بخوبی تقطیع ہوجاتاہے۔
آخر یہ بحث کسی نتیجہ کے بغیر ہی ختم ہوتی ہے کون صحیح ہے اورکون غلط ۔یہ بات وہیں رہ گئی کسی نتیجہ  کے بغٰیراگربحث کوختم ہی کرنا تھا توچھیڑی ہی کس لیے تھی۔کئی ماہ تک یہ چرچاچلا،صرف ایک مصرع (چاہئے توفقرہ بھی کہہ سکتے ہیں)تقطیع کرنے کے لیے کئی مضامین لکھے گئے ،آخر کارادارہ کتاب نما کواس نوٹ کے ساتھ اس بحث کوختم کرناپڑاکہ یہ بحث اب یہیں پرختم کی جاتی ہے۔
یوں دیکھاجائے تویہ بحث غیردلچسپی بھی نہیں تھی کچھ عروضی پہلو ضرورنکل آئے، جس سے استفادہ حاصل کیاجاسکتاہے فیضی کے اس قول سخن فہمیِ عالم بالامعلوم شد،کوزارعلامی موزوں قراردیتے ہیں کمال احمدصدیقی اورفاروقی صاحب ناموزوں کہتے ہیں،
 یہ مقولہ بہ حسن وخوبی حقیقی اوزان میں تقطیع ہوتاہے زارعلامی نے جن اوزان میں اس کی تقطیع کی ہے وہ یہ ہیں
1)بحرمقتضب مثمن ۔مخبون ،مجنون،مرفوع مجنون مخنق مخنق(مفاعیل،مفاعلن،مفعولن،فاعلن)
2)مخبون ،مخبون ،سالم،مرفوع مخبون مسکن 
(مفاعیل،مفاعلن،مفعولاتم،فعل)
3)بحرہزج مثمن  مکفوف مقبوض ومحذوف مکفوف مقبوض مخنق (مفاعیل،فعول،مفاعیلن،فاعلن)
مندرجہ بالا تین میں سے نمبر1،نمبر2اوزان پرکسی قسم کاعروضی اعتراض واردنہیں ہوتا،وزن نمبر3میں فنی نقص ہے اس کی وضاحت بہت ضروری ہے اسی کے پیش نظر مجھے یہ مضمون لکھناپڑا۔
ڈاکٹرکمال احمدصدیقی صاحب اپنے مضمون عروض معروض کے صفحہ 35 یوں رقم طراز ہیں کہ 
جواوزان انہوں نے بحرمقتصب میں تجویزکیے ہیں کیاوہ فارسی میں رودکیؔ سے لے کر فیضیؔ تک کے یہاں اورفیضیؔ کے کسی ہم عصر عرفیؔ،نظیریؔ ،کلیمؔ،حزیںؔ یابعدکے کسی شاعرکے یہاں اس آہنگ میںکسی کی ایک بھی غزل ہے کم سے کم فیضیؔ کے۔۔۔۔۔۔۔صدی پراناہو،
مندرجہ بالاپوراپیراگراف مہمل باتوں پرمشتمل ہے،عروض میں کسی شعر یامصرع کوپڑھنے یاجانچنے کاطریقہ کاریہ نہیں ہے کہ اولین متوسلین یامتاخر ین میں اس کی مثالیں موجود رہی ہوں،ضروری یہ ہے کہ جوبھی وزن حاصل ہوتا ہے قاعدہ عروض سے مستخرج ہوناہے چاہئے مستعمل اورغیرمستعمل مترنم اورغیر مترنم مرجح اورغیرمرجح کی بحث الگ چیزہے اس بناپر کسی صحیح وزن کو ہرگز ردنہیں کیاجاسکتا ۔کتابوں کے  مخطوطوں یاپیش رؤوں کے کلام میں اس کی مثالیں ڈھونڈنا محض بوکھلاہٹ کانتیجہ ہے ۔صحیح قوانین کے اطلاق سے سینکڑوں اوزان دریافت ہوتے ہیں بہتوں کواس کاعلم نہیں ہوتا،
دونوں حضرات زارعلامی کے جس وزن کوعذر ٹھہراتے ہیں وہ اس طرح ہے۔
مفاعیلُ۔فعولُ،مفاعیلن۔فاعلن
بحرہزج مثمن مکفوف،مقبوض ومحذوف،مکفوف،مقبوض مخنق
اس وزن کے سلسلے میں ان کایہ خیال ہےکہ ہزج میں فعول کوئی 
مزاحف ہوہی نہیں سکتا۔کیونکہ رباعی کے آخری ارکان کوچھوڑکر اورکہیں حکم معاقبہ کی خلاف ورزی  نہیں ہوسکتی۔مفاعیلن کے دونوں اسباب خفیف سلامت تورہ سکتے ہیں لیکن ان دونوں ساقط نہیں کیے جاسکتے ۔ی اوزان میں معاقبہ ہے ان میں صرف ایک ساقط کیاجاسکتاہے۔شاخدارمطلق حضرت زارعلامی نے حذف سے ان ساقط کیا ماقبل ل کے ساتھ اورقبض سے ی ساقط کی اوراسے حشو میں رکھا یہ سراسر خلاف وضع عروض ہے۔"
پہلی بات تویہ ہے کہ موصوف فعول پرعروضی اعتبار سے غورنہیں کیا۔ دوسری یہ غلطی کی ہے حکم معاقبہ کی خلاف ورزی ارکان رباعی کے اواخرمیں رواسمجھتے ہیں جبکہ معلوم ہوکہ حکم معاقبہ کی خلاف ورزی کہیں بھی روانہیں ہے اوزان رباعی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں،فعول ُرباعی کابھی کوئی رکن نہیں ہے۔یہ رکن مقبوض و محذوف بتایاگیاہے۔رباعی کے آخری رکن میں آنے والا مزاحف رکن فعول اہتم ہے۔مفاعی لن کے ی اورن میں معاقبہ ہے اس ی اورن کوبہ یک وقت گرانا خلاف قاعدہ عروض ہے۔جیسے کہ
سالم رکن مفاعیلن پرقبض اورکف ایک ساتھ عمل کیاجائے یعنی بہ عمل زحاف قبض مفاع لن اس مفاع لن(مقبوض)پرکف کاعمل کیاگیاتو مفاع ل حاصل ہوا۔اوریہ حکم معاقبہ کی خلاف ورزی ہے۔
زارعلامی صاحب اپنے اس رکن فعول کوصحیح گرادننے کے لیے جوجواز پیش کرتے ہیں ذراوہ بھی  نظرکے سامنے ہو۔
"ٌٌْْْْْفعول بہ سکون لام اورفعول بہ تحریک لام میں حذف کاعمل مشترک ہے فعول بہ سکون لام میں قصر کے ذریعہ مفاعی لن کے پہلے سبب خفیف پرآخری سبب خفیف کوگراکر قصرکاعمل ہواہے۔اسی طرح فعول بہ تحریک لام میں آخری سبب خفیف گرانے کے بعد یاگرانے سے پہلے قبض کاعمل ہواہے دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ ایک جگہ حرف ساکن کوگرایاگیاہے اوردوسری جگہ حرف متحرک کوگرایاگیاہے لہٰذا جب فعول بہ سکون لام کا استعمال جائزہوجاتاہے تو فعول بہ تحریک لا م کا استعمال بھی جائز ہوجاتاہے
صحیح ہےکہ فعول بہ سکون لام اورفعول بہ تحریک لام میں حذف کا عمل مشترک ہے،لیکن ایک میں حکم معاقبہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ایک میں نہیں ۔کیسے اس کی توضیح یہ ہے۔
مفاعی لن۔پرحذف کاعمل کیاجائے مفاعی بچااس پرقصر کاعمل کیاجائے تو رکن کے آخرسے سبب خفیف کے حرف متحرک کوساقط کیاجاتاہے مفاعی میں متحرک عین کوساقط کیامفای حاصل ہوا جسے مانوس رکن سے فعول سے بدل لیاجاتاہے۔یادرہے کہ اس میں عی سبب خفیف کے متحرک عین پراثرہواہے ساکن یاے پرنہیں ۔اس طرح رباعی کے رکن فعول میں حکم معاقبہ کی خلاف ورزی ہرگزنہیں مانی جاسکتی اگرایساہے تویہ رکن بھی غلط ہے۔
فعول میں دیکھیں کہ یہ رکن کیسے حاصل ہوتاہے نیزحکم معاقبہ کی خلاف ورزی کیسے ہوتی ہے مفاعی لن پربذریعہ حذف مفاعی حاصل رہااس پر قبض کاعمل کرتے ہیںیعنی رکن سے پانچواں ساکن حرف یاے گراتے ہیں۔مفاع بچاجسے فعول سے بدل لیتے ہیں اور اس رکن کا نام مقبوض محذوف کہلاتاہے۔ ایک رکن پرعمل حذف کے ساتھ آخری ساکن حرف پہلے گرچکاہے،دوسراساکن حرف کسی صورت بچائے رکھنا چاہئے لیکن یہاں ایسانہیں ہوتا۔چاہے مفاعیلن پرقبض کاعمل پہلے ہی کیوں نہ کیاجائے جیسے کہ زارعلامی نے کیاہے ۔ 
کمال صاحب کوایک اعتراض اسی وزن میں یہ ہے کہ محذوف حشو میں کیسے لایاجاسکتاہے۔
بالکل صحیح ہے لیکن اس کے لیے بھی ایک قاعدہ کلیہ ہے جس کا انہیں شایدعلم نہیں ہے وہ یہ کہ متحرک الآخر والے ارکان مختص بہ عروض وضرب ہوتے ہوئے بھی صدروابتدا حشوین میں بلاکسی قباحت کے لائے جاسکتے ہیں  اورایسے ارکان مختص بہ عروض وضرب میں لائے نہیں جاسکتے۔اوراگر کوئی ایساکرتاہے تواس کی اجازت ہے لیکن اردومیں ایسی صورت مشکل ہے یابہت سلیقگی کی 
ضرورت ہے۔ایسے ارکان معدودے چند ہی ہیں جومتحرک الآخر حرف پرختم ہوتے ہیں ۔معلومات کے لیے یہاں لکھنا مناسب سمجھتاہوں۔
1)مس تفع لن  (سالم رکن)  مفاع (فعول) مخبون  ومحذوف
2)مس تفع لن  (سالم رکن)  مفعول محذوف
3)مفعولات (سالم رکن) فاع(فعل)مطوی اصلم
4)فاع لاتن(سالم رکن)فاع (فعل)مجبوب 
5)مس تف علن(سالم رکن)فاع(فعل)مطوی اخذ
مس تف علن کے فعل کے سلسلے میں کچھ عرض کرناضروری ہے اس سے پہلے کے کسی بھی عروضی کتاب میں یہ فرع درج نہیں ملے گی۔جس کی وضاحت یوں ہے۔
سالم مس تف علن پربہ عمل طے یعنی رکن کے چوتھے ساکن حرف کوگرایاجاتا ہے بشرطیکہ وہ سبب خفیف کاساکن ہو۔اس طرح  مس ت علن حاصل ہواپھر اس پرزحاف حذذ کاعمل یعنی رکن کے آخر سے وتدمجموع علن گرادیاجاتاہے۔مس ت بچارہتاہے جسے مانوس رکن فعل یافاعِ سے بدل لیاجاتاہے۔
ایسے کچھ ارکان جوحاصل کیے گئے ہیں ان سے اوزان میں مزیداضافہ کی گنجائش نکل آتی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔البتہ رکن مفاعیلن سے مفاع(فعول)مقبوض ومحذوف حاصل کرنا کسی صورت درست نہیں ماناجاسکتا۔فیضی کے اس مقولے کوتقطیع کرنے کے لیے یہ فرع نہ صرف غیرمناسب ہے بلکہ بہت سارے گمراہیوں کی پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے یہ مقولہ بہ آسانی بحرمتقارب معشرسالم،سالم ،مقبوض،مقبوض،مقبوض مخنق ،اخذ)میں بہ خوبی تقطیع کیاجاسکتاہے۔اوریہ ثابت کیاجاسکتاہے کہ سخن فہمی عالم بالا معلوم شد ایک موزوں مقولہ ہے بس!
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages