Breaking

Post Top Ad

Monday, October 21, 2019

رباعی کے 54اوزان اورشجرۂ اخرب وشجرۂ اشتر

رباعی کے 54اوزان
اورشجرۂ اخرب وشجرۂ اشتر



غلطاں غلطاں ہمی رودتالبِ گو/کہتے ہیں یہ مصرع جوزبازی کھیلتے ہوئے سلطاں یعقوب بن لیث صفار کابیٹا گنگنارہاتھا جس نے لوگوں کوبہت متاثرکیا۔یہ بات الگ کہ حقیقت یاحکایت لیکن ایران کانامی گرامی شخص استاد رودکیؔنے اسی مصرع کی بنیاد پررباعی کے اوزان ایجاد کیے اور بحر ہزج مفاعیلن  مفاعیلن  مفاعیلن  مفاعیلن  کوبحررباعی سے مخصوص کیا۔ یاد رہے کہ رباعی کودوبیتی اورترانہ بھی کہتے ہیں(اب رباعی کے لیے یہ اصطلاح رائج نہیں ہے)
اوزان رباعی کی تشکیل کے لیے عروض میں مسلم قوانین یعنی اصول سبب پئے سبب است ، وتدپئے  وتداست ، حکم معاقبہ اورعمل زحافات بنائے اوراسی کے تحت استاد رودکیؔ نے رباعی کے ابتدائی اوزان یوں قائم کیے
1)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،فعل(بحرہزج مثمن ،اخرب، مکفو ف، مکفوف ،مجبوب)
2)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،فعول(بحرہزج مثمن ،اخرب، مکفو ف، مکفوف ،اہتم)
3)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،فعل(بحرہزج مثمن ،اخرب، مقبوض، مکفوف ،مجبوب)
4)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،فعول(بحرہزج مثمن ،اخرب،مقبوض، مکفوف ،اہتم)
انہیں بالااوزان پرعمل تخنیق فرمانے سے مروجہ 24اوزانِ رباعی حاصل ہوتے ہیں
بحرہزج کے دوفروع مفاعیل (مکفوف) مفاعلن(مقبوض) جو دونوں  عام زحافات سے ہیں اورحکم معاقبہ کے تحت ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرناعین جائزہے۔
نوٹ۔1)حکم معاقبہ یہ وہ اصول ہے کہ جس سے دومزاحف ایک دوسرے  کی جگہ لائے جاسکتے ہیں بہ شرط یہ کہ وہ کسی ایک رکن سے مشتق ہوں جیسے کہ رباعی کے اوزان میں مفاعیلن سے مفاعلن (مقبوض)اورمفاعیل ُ(مکفوف) یہ دونوں فروعات ایک دوسرے کی جگہ رکھنے سے کلام میں کسی قسم کاعروضی سقم پیدانہیں ہوتا۔
2)اوزان رباعی پرغورکرنے سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس کے وزن کے ماقبل رکن اگر وتدپرختم ہوتاہے تو اس کامابعد رکن بھی وتدہی سے شروع ہوتاہے اوراسی طرح کوئی رکن سبب پرختم ہوتاہے تواس کا مابعدرکن بھی سبب ہی سے شروع ہوگا۔یہی ترتیب تشکیل اوزان رباعی میں پائی جائے گی جسے اصول سبب پئے سبب است ، وتدپئے وتداست کہتےہیں۔
استادرودکیؔ نے مندرجہ بالاوزن رباعی نمبر 1 میں رکن دوم وسوم میں مفاعیل مفاعیل رکھاہے۔حکم معاقبہ کے تحت مفاعلن مفاعلن رکھ کر ایک نیاوزن دریافت نہیں کیا۔
اسی طرح اوزان رباعی نمبر4-3 کے رکن دوم میں مفاعیل اوررکن سوم میں مفاعلن نہیں رکھا جبکہ حکم معاقبہ کے تحت ایساکرنابالکل جائزتھا۔آخراس نے ایسا کیوں نہیں کیا اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ عروض جیسے خشک مضمون میں اس کی نظر نے بھی دھوکہ کھائی۔مگر جب اس چوک پہ علام عشق سحرآبادی کی جب نظرپڑی توموصوف نے سمجھنے میں دیرنہیں کی اوررباعی کے  بنیادی اوزان اس طرح تجویز کرکے رباعی میں مزیدبارہ (12) اوزان کااضافہ کردیا۔
علام سحرعشق ۤبادی کے ایجاد کردہ بنیادی اوزان یہ ہیں
1)مفعول۔ مفاعلن۔مفاعلن۔فعل(بحرہزج مثمن اخرب مقبوض مقبوض مجبوب)
2)مفعول۔مفاعلن۔مفاعلن۔فعول(بحرہزج مثمن اخرب مقبوض مقبوض اہتم)
3)مفعول۔مفاعیل۔مفاعلن۔فعل(بحرہزج مثمن اخرب مکفوف مقبوض مجبوب)
4)مفعول۔مفاعیل۔مفاعلن۔فعول(بحرہزج مثمن اخرب مکفوف مقبوض اہتم)
ان مندرجہ بالااوزان پرعمل تخنیق کرنے سے مروجہ بارہ اوزان دریافت ہوتے ہیں اس طرح سے رباعی چھتیس اوزان پرمشتمل ہوتی ہے۔ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ علام سحرعشق آبادی اوراستاد رودکیؔ کے ان اوزان رباعی میں چھے زحافات کااستعمال ہواہے۔جویوں ہیں۔
خرب، ۔کف،۔قبض،۔جب،۔ہتم،۔تخنیق
بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مقبوض،مجبوب /اہتم
مفعول،مفاعیل مفاعلن،فعل/فعول۔ رباعی کےاس مجوزہ وزن میں عمل زحافات دیکھئے
1)مفعول(اخرب)
مفاعیلن (سالم)پرزحاف خرب سے حاصل ہوتاہے یہ زحاف کف اورخرم کامجموعہ ہے اورصدروابتدا سے مخصوص ہے۔
2)مفاعیل(مکفوف)
مفاعیلن (سالم )پرزحاف کف کے عمل سے یعنی رکن سے ساتواں حرف گرادینا بشرطیکہ سبب خفیف کا ہو
3)مفاعلن(مقبوض)
مفاعیلن(سالم)پرزحاف قبض کے عمل سے یعنی رکن سے پانچواں حرف گرا دینا  بشرطیکہ سبب خفیف کاہوحاصل ہوتاہے اوریہ عام زحاف ہے۔
4)فعل(مجبوب )
مفاعیلن(سالم) پرزحاف جب کاعمل کرنے سے حاصل ہوتاہے اس کی یہ تعریف ہے کہ رکن کے آخرسے دو سبب خفیف گرادینا یادوسری معنی میں حذف کاعمل کیاجائے۔اوریہ عروض وضرب سے مخصوص ہے۔
5)فعول(اہتم)
مفاعیلن(سالم)پریہ عمل ہتم حاصل ہوتا ہے اوریہ حذف اورقصر کامرکب ہے۔
حذف کی تعریف:
  رکن کے آخر سے ایک سبب خفیف گرایاجاتاہے۔
قصرکی تعریف: 
رکن کے آخر سے ایک سبب خفیف کے حرف متحرک کوگرایاجاتاہے۔اس طرح حاصل شدہ رکن مختص بہ عروض و ضرب ہوتاہے۔
6)عمل تخنیق:
 اس کی تعریف یہ ہے کہ مابعد رکن کے پہلے متحرک حرف کوساکن کرکے ماقبل رکن کے آخری متحرک حرف سے پیوست کرنا۔مثلاً
مفعول+مفاعیل یعنی مفعولم۔فاعیل جسے مانوس رکن مفعولن۔مفعول
اخرب مکفوف اخرب مکفوف مخنق
سے بدل لیاجاتاہے۔مندرجہ بالااوزان پرعمل تخنیق فرمانے سے یہ وزن حاصل ہوتاہے۔
مفعولن۔مفعولن۔فاعلن۔فعل/فعول
اصطلاحی نام یوں ہے "بحرہزج اخرب مکفوف مخنق ،مقبوض مخنق،مجبوب /اہتم"
بعض عروض دانوں نے اوزان رباعی کو سمجھنے میں غلطی کی ہے اوربلا تحقیق وہ یوں لکھتے ہیں کہ اوزان رباعی میں استعمال ہونے والے زحافات نوہیں۔
خرب،کف،قبض،شتر،خرم،جب،ہتم،بتر،زلل
جب وہ اس طرح سے مانتے ہیں تویہ بات واضح ہے کہ صدروابتدا میں نظرآنے والا مفعولن کواخرم حشوین میں نظرآنے والے فاعلن کواشتر اور مفعول کواخرب اورعروض وضرب کے فع کوابتراورفاع کوزلل۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حشوین میں آنے والے فاعلن کواشتر اور مفعول کواخرب کہنا بالکل غلط ہے۔یہ دونوں رکن زحاف تخنیق کے مرہون منت ہیں اوراس فاعلن کومقبوض مخنق اور مفعول کومکفوف مخنق کہتے ہیں اسی طرح صدروابتدا کامفعولن اخرم نہیں بلکہ یہ اخرب ہے جس پرزحاف تخنیق کا اثرہے۔وزن رباعی کے دوسرے رکن مفاعیل کامتحرک "میم"سے پہلے رکن کے مفعول (اخرب) کے آخری متحرک "لام" سے پیوست ہوکر مفعولن بنتاہے لہٰذا اس کو اخرب ہی کہناصحیح ودرست ہے جواسے اخرم کہتے ہیں وہ گمراہ ہیں اوزان رباعی میں آنے والے" فع" کوابتر (جبکہ بترکاعمل مفاعیلن پر ہوتاہی نہیں)اورفاع کوازل کہنابھی ایک مغالطہ ہی ہے دراصل یہاں "فع"مجبوب  مخنق اور فاع اہتم مخنق ہے۔
خواجہ حسن قطان خراسانی نے اوزان رباعی کودوشجروں یعنی مفعول والے اوزان کوشجرۂ اخرب اور مفعولن والے اوزان کوشجرۂ اخرم منسوب کرکے ایک مغالطہ اورپیداکردیا۔ قطان خراسانی نے صدر وابتدا کے مفعولن کو ،اخرم"مان کر غلطی کی ہے۔یوں تو مفاعیلن پربہ عمل خرم صدروابتدا کا مفعولن ضرورحاصل ہوتاہے مگراوازن رباعی کے صدروابتدا میں آنے والا مفعولن ہرگز اخرم ہوکر نہیں بلکہ یہ زحاف تخنیق کے زیراثر مفعول (اخرب) نے یہ شکل
بنائی ہے۔اس بات کوسمجھنے کے لیے رباعی کے اس وزن کوغور سے دیکھئے۔ ہماری بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔
مفعولن،۔مفعول،۔مفاعِلن،فعل
یہ وزن مفعول،مفاعیل مفاعلن فعل سے بذریعہ عمل تخنیق حاصل ہوتا ہے اس وزن میں خرم کاعمل ہی نہیں ہوالہٰذا اس مفعولن کو "اخرم"کہنا کیوں کر درست ہوسکتاہے؟۔رباعی کے صدروابتدا کامفعولن جوحاصل ہوتاہے اس کاطریقہ ایساہے۔دوسرا رکن مفاعیل (مکفوف)کاوتدمجموع مفا کامتحرک میم ساکن ہوکر ماقبل رکن مفعول(اخرب) کے متحرک "لام" سے جڑ جاتاہے۔
عمل تخنیق دیکھئے:
مفعول+ مفاعیل بہ عمل تخنیق مفعولم۔فاعیل ہوا جس کومانوس رکن مفعولن۔مفعول سے بدل لیا جاتا ہے۔
مفعول مفاعیلن فاعلن فعل
اس وزن میں عمل تخنیق کے ذریعے حشو دوم میں"فاعلن" آیاہے یاد رہےکہ یہ "فاعلن"اشترنہیں بلکہ مفاعلن(مقبوض)کاوتد مجموع مفا کا متحرک، میم،ساکن ہوکر ماقبل رکن کے مفاعیل (مکفوف) کے وتدمفروق عیل کے متحرک "لام" سے پیوست ہوجاتاہے۔جیسے کہ
مفاعیل+مفاعلن بہ عمل تخنیق مفاعیلم۔فاعلن ہوا یعنی مفاعیلن۔فاعلن ہوا 
مکفوف۔مقبوض
اس فاعلن کومقبوض مخنق کہتے ہیں۔
رباعی کایہ وزن بھی دیکھئے
مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
اس وزن کے آخری رکن میں "فع" آیاہے جسے بعض عروضیوں نے ابتر کہاہے یہ ان کی ناسمجھی ہی ہے مفاعیلن پرزحاف بتر (جوحذف اورقطع کا مرکب ہے)کاعمل ہوتاہی نہیں مفاعیلن پربہ عمل حذف مفاعی رہا اس پر قطع کاعمل نہیں ہوسکتا،البتہ اس رکن پرجب اورقطع کاعمل کرنے سے تو"فع" حاصل ہوتاہے جس کااصطلاحی نام مجبوب مقطوع ہوتاہے لیکن اوزان رباعی میں آنے والا "فع" زحاف تخنیق کامرہون منت ہے اور یہ مجبوب  مخنق صحیح ہے۔
فعل (مجبوب ) کا متحرک "ف" ساکن ہو کر ماقبل رکن مفاعیل (مکفوف ) کے متحرک لام سے جوڑلیا جاتاہے جس کااصطلاحی نام مجبوب  مخنق ہوتاہے عمل تخنیق دیکھئے
مفاعیل+فعل بہ عمل تخنیق مفاعیلم۔عل حاصل ہوا یعنی مانوس ارکان مفاعیلن۔فع سے بدل لیتے ہیں۔
اسی طرح رباعی کایہ وزن دیکھئے
مفعول۔مفاعیل۔مفاعیلن،فاع ۔اس وزن کے آخری رکن" فاع" پرظاہرہے ازل کادھوکہ ہوتاہے لیکن اس فاع کوحاصل کرنے کے لیے عمل تخنیق کارفرماہے۔
فعول(اہتم)کامتحرک "ف"ساکن ہوکر ماقبل رکن مفاعیل (مکفوف) کے متحرک "لام"سے پیوست ہوتاہے عمل تخنیق یوں ہے۔
مفاعیل+فعول(مکفوف/اہتم) تخنیق فرمانے سے مفاعیلف۔عول جسے بعدمیں مانوس ارکان مفاعیلن۔فاع میں تبدیل کرلیاجاتاہے اس طرح حاصل شدہ رکن کو "فاع"کو اہتم مخنق کہتے ہیں ۔پھربھی اسے کوئی ازل کہتاہے تواس کی کوتاہ فہمی ہے۔
لہٰذا اس جملہ تجزیہ سے یہ واضح ہوتاہےکہ اوزان رباعی کے صدرو ابتدا کے مفعولن کواخرم حشوین کے مفعول کواخرب اورفاعلن کواشتراورعروض و ضرب کے فع کوابتر فاع کوازل کہنا سراسرغلط ہے۔
میرایہ مضمون کتاب نما دہلی کے شمارہ 1993 اپریل میں شائع ہوکرکافی دادوتحسین کاحامل رہاہے۔اس مضمون کواس کتاب میں شامل کرنے کے لیے
جب نظرثانی کررہاتھا اسی وقت ایک کتاب عروض پرمبنی بنام "کتاب العروض" از پروفیسر عظیم الرحمان نظرسے گزری(موصوف کی عروض پراولین کتاب "ابجد العروض" ایک مضحکہ خیزکتاب ہے جس کاکبھی تفصیلی محاکمہ کرنے کی سعی کروں گا) کتاب العروض"میں ایک مضمون رباعی پربھی ہے میرے اس مضمون میں گنجائش نہیں کہ اس پرتفصیلی جائزہ لوں۔لیکن چند کلمات عرض ہیں کہ موصوف اوزان رباعی کے مزاحف ارکان کے جواصطلاحی نام دیے ہیں۔وہ کچھ اس طرح ہیں 
 ،رباعی کے مصرعے ہزج کے چار مزاحفوں سے متشکل ہوتے ہیں۔مصرعوں کے صدروابتدا میں مفعول(ہزج اخرم مکفوف) یامفعولن(ہزج اخرم) ہوتاہے جبکہ عروض /ضرب پرفع (ہزج ابترمحذوف)فاع(ہزج ابترمقطوع)فعل (ہزج مجبوب ) یافعول (ہزج اہستم یا ابتر مقبوض مسبغ)ہوتاہے ۔
موصوف کی ہی ایک کتاب "ابجدالعروض" میں رباعی کے اوزان غلط طور سے درج اوراصطلاحی نام بھی غیر عروضی طورپر تحریرہیں مثلاً ایک وزن میں مع اصطلاحی نام درج کررہاہوں ۔
مفعول۔مفاعیل۔فعولن۔فعلن
ہزج اخرم مکفوف۔ہزج مکفوف ہزج محذوف۔ہزج ابتر
اب پوری کتاب کااندازہ لگایا جاسکتاہے۔
محترم کمال احمدصدیقی صاحب کی کتاب "آہنگ وعروض" جوملک کی متعدد یونیورسیٹیوں میں شاملِ نصاب ہے ۔حقیقت میں دفتراغلاط ہے۔اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر 268پر اوازن رباعی کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں
رباعی کے اوازن کا استخراج بحرہزج کے ارکان سے ہوتاہے صدروابتدا لازمی طور سے یاتومفعول (اخرب)ہوں گے یامفعولن (اخرم) اسی طرح عروض/ضرب لازمی طور سے فعل(مجبوب )یاابتر(فع)یااہتم(فعول)یاازل (فاع)میں سے ہوں گے حشوین میں سالم (مفاعیلن )اشتر(فاعلن،مقبوض (مفاعلن)اورمکفوف (مفاعیل)مختلف ترتیبوں سے آتے ہیں بارہ ترتیبیں اخرم(مفعولن)اوربارہ اخرب(مفعول)سے شروع ہوتی ہیں عروضیوں نے اخرب اوراخرم کے الگ الگ دائرے بنائے اورکچھ نے یہ بھی قیدبھی رکھی کہ ان دو دائروں کے اوزان  کاخلط ایک رباعی میں نہ ہو لیکن اس اصول کی پابندی پہ کم ، اس سے انحراف پرزیادہ عمل ہوا"۔
موصوف کی عروض دانی پہ تعجب ہوتا ہے ۔ویسے ان کی یہ کتاب پورے عروض خلیل کے ردمیں معلوم ہوتی ہے۔وہ بھی دوسرے کوتاہ فہم عروضیوں کی طرح صدروابتدا کے مفعولن کو "اخرم" مانتے ہیں۔جبکہ اصل میں یہ اخرب کی بدلی ہوئی صورت ہے۔اورحشوین میں وارد مفاعیلن کوسالم سمجھتے ہیں جبکہ یہ مکفوف ہی ہے جومابعد رکن سے مل کر ایسی حالت اختیار کرلی ہے اوزان رباعی میں مفاعیلن سالم آتاہی نہیں فاعلن اشتر یہاں نہیں ہے بلکہ ماقبل رکن سے جڑکر ایسی شکل میں نظرآتاہے یہ مقبوض مخنق ہے پہلے بھی یہ عرض کیاجا چکاہے کہ "فع"ابتر بن کرنہیں آئے گا۔زحاف بتر کامفاعیلن پرکوئی عمل ہی دخل نہیں ہوسکتا۔اسی طرح "ازل فاع"کی کیفیت ہے یہ یہاں مجبوب  مخنق کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی کردوں کہ رباعی کے اوزان (36اوزان رباعی) کااختلاط ازروئے عروض جائزودرست ہے۔ ان پورے 36 اوزان رباعی کے شروع میں صرف "اخرب"ہی ہے۔"اخرم"عروضی ناسمجھوں کی دین ہے۔
میرے ترتیب کردہ شجروں ،شجرۂ اخرب اورشجرۂ اشتر کوسمجھانے سے پہلے رباعی کے بنیادی اوزان پرعمل تخنیق فرمادیتا ہوں۔
رباعی کے بنیادی اوزان اصطلاحی نام بحرہزج مثمن
1)مفعول مفاعیل مفاعیل فعل(بحرہزج مثمن اخرب،مکفوف،مکفوف،مجبوب)

2)مفعول مفاعیل مفاعیل فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مکفوف،مکفوف،اہتم)
3)مفعول مفاعلن مفاعیل فعل(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،مکفوف،مجبوب )
4)مفعول مفاعلن مفاعیل فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،مکفوف،اہتم)
رودکیؔ
5)مفعول مفاعلن مفاعلن فعل(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،مقبوض،مجبوب 
6)مفعول مفاعلن مفاعلن فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،مقبوض،اہتم)
7)مفعول مفاعیل مفاعلن فعل(بحرہزج مثمن۔اخرب،مکفوف،مقبوض،مجبوب 
8)مفعول مفاعیل مفاعلن فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مکفوف،مقبوض،اہتم)
علام سحرعشق آبادی
9)فاعلن مفاعیل مفاعیل فعل(بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف،مجبوب 
10)فاعلن مفاعیل مفاعیل فعول(بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف،اہتم
11)فاعلن مفاعلن مفاعیل فعل(بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،مجبوب 
12)فاعلن مفاعلن مفاعیل فعول(بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،اہتم
13)فاعلن مفاعلن مفاعلن فعل(بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مقبوض،مجبوب 
14)فاعلن مفاعلن مفاعلن فعول(بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مقبوض،اہتم)
15)فاعلن مفاعیل مفاعلن فعل(بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض،مجبوب 
16)فاعلن مفاعیل مفاعلن فعول(بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض،اہتم
زارعلامی
مندرجہ بالا اوزان رباعی کے ابتدائی اوزان کہلاتے ہیں ان پر عمل تخنیق کرنے سے مزید اوزان حاصل ہوتے ہیں،جن کی تفصیلی درج ہے۔
استادرودکیؔ کے بنیادی چار اوزان پر عمل تخنیق سے حاصل ہونے والے 24اوزان رباعی
1)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،فعل(بحرہز ج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،مجبوب اہتم
2)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مکفوف،مکفوف،اہتم
3)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،فعل(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،،مکفوف مجبوب 
4)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،فعول(بحرہزج مثمن۔اخرب،مقبوض،مکفوف،اہتم
5)مفعول،مفاعیل،مفاعیلن،فع         (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،مجبوب مخنق
6)مفعول،مفاعیل،مفاعیلن،فاع      (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،اہتم مخنق
7)مفعول،مفاعیلن،مفعول،فعل     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،مخنق مجبوب  
8)مفعول،مفاعیلن،مفعول،فعول   (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،مخنق اہتم
9)مفعول،مفاعیلن،مفعولن،فع             (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف،مکفوف،مجبوب  مخنق
10)مفعول،مفاعیلن،مفعولن،فاع(بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مکفوف مخنق اہتم مخنق
11)مفعول،مفاعلن،مفاعیلن فع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض،مکفوف مخنق،مجبوب  مخنق
12)مفعول،مفاعلن،مفاعیلن فاع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض ،مکفوف مخنق،اہتم مخنق
13)مفعولن،مفعول،مفاعیل فعل(بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف،مجبوب 
14)مفعولن،مفعول،مفاعیل،فعول     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف، اہتم
15)مفعولن،مفعولن،مفعول،فعل     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف مخنق،مجبوب 
16)مفعولن،مفعولن،مفعول،فعول     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف مخنق،اہتم
17)مفعولن،مفعول،مفاعیلن،فع     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف،مجبوب   مخنق
18)مفعولن، مفعول،مفاعیلن،فاع     (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف،اہتم مخنق
19)مفعولن مفعولن مفعولن فع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف مخنق،مجبوب  مخنق
20)مفعولن مفعولن مفعولن فاع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف مخنق،اہتم مخنق

21)مفعولن،فاعلن،مفاعیل فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق،مکفو ف مجبوب مخنق
22)مفعولن،فاعلن،مفاعیل فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق،مکفوف ،اہتم مخنق
23)مفعولن،فاعلن،مفاعیلن فع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق،مکفوف ،مجبوب   مخنق
24)مفعولن،فاعلن،مفاعیلن فاع    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق،مکفوف،اہتم مخنق
علام سحرعشق آبادی کے ابتدائی چاراوزان پرعمل تخنیق سے حاصل ہونے والے  بارہ اوزان رباعی
25)مفعول،مفاعلن،مفاعلن فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض ، مقبوض،مجبوب ) 
26)مفعول،مفاعلن،مفاعلن فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض ، مقبوض،اہتم) 27)مفعول،مفاعیل،مفاعلن فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف ، مقبوض،مجبوب 
28)مفعول،مفاعیل،مفاعلن فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف ، مقبوض،اہتم
29)مفعول،مفاعیلن،فاعلن فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف ، مقبوض مخنق،مجبوب
30)مفعول،مفاعیلن،فاعلن فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف ، مقبوض مخنق،اہتم
31)مفعولن،فاعلن،مفاعلن فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق ، مقبوض ،مجبوب    
32)مفعولن،فاعلن،مفاعلن فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مقبوض مخنق ، مقبوض ،اہتم)
33)مفعولن،مفعول،مفاعلن فعل    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق ، مقبوض ،مجبوب ) 
  34)مفعولن،مفعول،مفاعلن فعول    (بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق ، مقبوض ،اہتم)
35)مفعولن،مفعولن،فاعلن فعل    بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق ، مقبوض مخنق ،مجبوب    
36)مفعولن،مفعولن،فاعلن فعول    بحرہزج مثمن،اخرب،مکفوف مخنق ، مقبوض مخنق اہتم
 یہ مندرجہ 36اوزان میرے تشکیل کردہ " شجرۂ اخرب"میں آتے ہیں۔مفعولن جودراصل اخرب ہی ہے اسے بھی "شجرۂ اخرب" میں ہی آناچاہئے۔ قطان خراسانی نے مفعولن کوشجرۂ اخرب سے منسوب کرکے جومغالطہ پیدافرمایاتھا وہ بھی اس سے دور جائے گا۔
میرے ترتیب کردہ دوشجرے اس طرح ہیں۔
1)شجرۂ اخرب
2)شجرۂ اشتر
۔"شجرۂ اخرب "میں استاد رودکیؔ اورعلام سحرعشق آبادی کے پورے 36 اوزان(بشمول مفعولن)آئیں گے،مفعول والے اورمفعولن والے اوزانِ رباعی کوالگ الگ سے لکھنے کے حق میں ہم اس لیے نہیں ہیں کیونکہ ایسا الگ الگ لکھنابھی اس مغالطہ کویوں ہی برقرار رکھتاہے ۔مفعولن جودراصل اخرب ہی ہے اس کو بھی مفعول یعنی اخرب والے اوزان میں ہی آناچاہئے اس لیے ہم نے شجرۂ اخرب میں ان مفعولن والے اوزان کااجتماع کیاہے ۔
،"شجرۂ اشتر"میں وہ فاعلن والے تمام اٹھارہ اوزان آئیں گے جس کو زارعلامی نے اختراع کیاہے اب تک عروضی کہتے آئے ہیں کہ رباعی میں استعمال ہونے والے یہ زحافات چھے ہیں۔
خرب،کف،قبض،جب،ہتم،تخنیق ۔جوبالکل درست وصحیح ہیں لیکن یہ زحافات استاد رودکیؔ اورعلام سحرعشق آبادی کے اوزان تک ہی محدودہیں اب جبکہ زارعلامی نے زحافات شتر کااستعمال کرکے زحافات رباعی میں اضافہ کردیاہے جوہرطرح سے جائز ہے اس سے کسی قسم کاعروضی اعتراض واردنہیں ہوتا۔لہٰذا اوزانِ رباعی میں اب سات زحافات استعمال ہوتے ہیں۔
ڈاکٹرزارعلامی کے ایجاد کردہ ابتدائی اوزان رباعی 8 ہیں ۔جن کی تفصیل درج ہے۔
1)فاعلن مفاعیل مفاعیل فعل (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف،مجبوب 
2)فاعلن مفاعیل مفاعیل فعول (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف،اہتم)
3)فاعلن مفاعلن مفاعیل فعل (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،مجبوب

4)فاعلن مفاعلن مفاعیل فعول (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،اہتم)
5)فاعلن مفاعلن مفاعلن فعل (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مقبوض،مجبوب )
6)فاعلن مفاعلن مفاعلن فعول (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مقبوض،اہتم)
 7)فاعلن مفاعیل مفاعلن فعل (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض،مجبوب 
8)فاعلن مفاعیل مفاعلن فعول (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض،اہتم)
ان اوزان پرعمل تخنیق کرنے سے مزید دس اوزان حاصل ہوتے ہیں۔
9)فاعلن مفاعیلن مفعول فعل                                   (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف مخنق،مجبوب )
10)فاعلن مفاعیلن مفعول فعول               (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف مخنق،اہتم)
11)فاعلن مفاعیل مفاعیل فع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف ،مجبوب  مخنق) 
12)فاعلن مفاعیل مفاعیلن فاع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف مخنق،اہتم مخنق)
13)فاعلن مفاعیلن مفعولن فع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف مخنق،مجبوب  مخنق)
14)فاعلن مفاعیلن مفعولن فاع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مکفوف مخنق،اہتم مخنق)   
15)فاعلن مفاعلن مفاعیلن فع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،مجبوب  مخنق ) 
16)فاعلن مفاعلن مفاعیلن فاع              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مقبوض،مکفوف،اہتم مخنق) 
17)فاعلن مفاعیلن فاعلن فعل              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض مخنق،مجبوب  
18)فاعلن مفاعیلن فاعلن فعول              (بحرہزج مثمن۔اشتر،مکفوف،مقبوض مخنق،اہتم 
(ڈاکٹر زارعلامی کے ایجاد کردہ یہ اٹھارہ اوزانِ رباعی اپنے ترتیب کردہ شجرۂ اشتر میں آتے ہیں)فاعلن والے اوزان پرتھوڑی سی روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے۔
بحرہزج مفاعیلن کے دوفروع مفاعیل (مکفوف) مفاعلن (مقبوض) جوعام زحافات سے ہیں ازروئے معاقبہ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں۔
مفاعیلن(سالم)پرکف کے عمل سے مفاعیل حاصل ہوتاہے اوراس مفاعیل(مکفوف)حاصل ہوتاہےاوراس مفاعیل(مکفوف)پرخرم کاعمل کرنے سے مفعول رکن بنتاہے جسے اخرب کہتے ہیں اور صدروابتدا سے مخصوص ہے اسی طرح مفاعیلن (سالم) پرقبض کاعمل کرنے سے مفاعلن موصول ہوتاہے اور اس مفاعلن(مقبوض)پرخرم کا عمل کرنے سے فاعلن حاصل ہوتاہے جسے اشترا کہتے ہیں اور یہ بھی صدروابتدا سے مخصوص ہے حکم معاقبہ کے تحت مفعول کی جگہ فاعلن رکھ کر اوزان رباعی حاصل کرنے سے کسی قسم کاعروضی اعتراض وارد نہیں ہوتااوریہ فاعلن والے اوزان رباعی کے مسلمہ قوانین پر پوری طرح سے اترتے ہیں۔
(فاعلن والے اوزان رباعی کی مزید تفصیل دیکھنا مقصود ہوتو ڈاکٹر زار علامی کی تصنیف"مسلمات فن" صفحہ نمبر 54 سن اشاعت 1988 ضرورملاحظہ کیجئے۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ ان اٹھارہ اوزان کے صدروابتدا کا فاعلن اشتر" ہے لیکن حشوین میں آنے والا فاعلن اشترنہیں بلکہ مقبوض مخنق ہے۔ یہ وزن دیکھئے۔
فاعلن مفاعیلن فاعلن فعل(اشتر،مکفوف،مقبوض مخنق،مجبوب )
حشو دوم میں جوفاعلن نظرآتاہے وہ اشترا بن کے نہیں آیا بلکہ زحاف تخنیق کا رہین منت ہے۔مندرجہ بالا وزن مندرجہ ذیل وزن پرعمل تخنیق کرنے سے حاصل ہوتاہے۔وزن یہ ہے۔
فاعلن مفاعیل مفاعلن فعل(اشترمکفوف مقبوض مجبوب )
مضمون ہٰذا میں جودوشجرے شجرۂ اخرب وشجرۂ اشتر کوترتیب دیاگیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خواجہ حسن قطان خراسانی کے شجروں کی اتباع کرنے سے بے راہ روی پیداہوتی ہے۔اوراسی طرح مفعول والے یا مفعولن والے اوزان کوالگ الگ سےلکھنا گویاکہ الگ الگ ہی ماننے کے برابر ہے۔ اوزانِ رباعی میں مفعولن جودراصل اخرب ہی ہے اورجو یہ زحاف تخنیق کی
وجہ سے مفعول (اخرب) یہ شکل اختیارکرلی ہے اس لیے اس وضاحت کے بعد راقم الحروف کی یہ سفارش ہے کہ مفعولن کومفعول والے اوزان یعنی شجرۂ اخرب اورفاعلن والے اوزان کوشجرۂ اشترمیں لکھناچاہئے۔
سچ تویہ ہے کہ علم عروض میں کلام موزوں اورناموزوں کی پرکھ کی جاتی ہے اوربحروزحافات کامطالعہ ہوتاہے اس میں شجرۂ ایجاد کرنا ایسی ویسی غیرحقیقی اصطلاحیں گھڑنا دامن عروض پربارکے سوا اورکچھ بھی نہیں۔قطان خراسانی نے غلط شجرے تشکیل دے کرلوگوں کوگمراہ کرنے کی بھرپورکوشش کی۔اوران کے ان شجروں کی عروضی حقیقت بیان کر کے اپنے صحیح موقف کورکھنے کے لیے ضروری تھا کہ صحیح شجروں کوترتیب دیاجائے۔
شجرۂ اخرب وشجرۂ اشتر بالکل مناسب ترتیب معلوم ہوتے ہیںاوریہ وہ اوزان رباعی کے لیے صحیح اصطلاحی نام بھی ہیں ۔اس حقیرسی کاوش پر ہم کوئی عروض دانی کا دعویٰ نہیں کرتے۔
ایک وضاحت
کتاب نما " میں اس مضمون کی اشاعت کے  بعد بہت سارے خطوط بعد کے شماروں میں شائع ہوئے،جہاں اس مضمون کی خوب پذیرائی ہوئی  وہیں کئی سوال اٹھائے گئے۔جن کے جوابات بھی کتاب نما میں شائع ہوئے۔ ان خطوط وجوابات کے مختصر اقتباسات پیش ہیں تاکہ تصویر کے دونوں پہلو آپ کے سامنے رہیں۔
آغاافسر:
(الف) 1964ءمیں محترم گوند رشک رام پوری نے رباعی کے 24اوزان شجرۂ اخرب واشتر کے مروجہ امکانا ت پرایک مدلل مضمون تحریرکیاتھا جوماہنامہ مجلس لاہورمیں شائع ہوا۔
(فراز)
جواب:۔"ویسے بھی اس میں میری ولادت کے چھے سال قبل یعنی 1964ء کی بات کی گئی ہے۔جناب رشک رام پوری نے اپنے مضمون رباعی کے 24اوزان شجرۂ اخرب وشجرۂ اشتر میں کیالکھاہے نہیں معلوم۔لیکن اتناکہہ سکتاہوں کہ 24یا36 اوزان رباعی میں شجرۂ اشترکی بات اتنی ہی غلط ہے جتنی شجرۂ اخرم کی ہے۔24 یا 36 رودکیؔ اورعلام سحرعشق آبادی کے اوزان رباعی میں زحاف شتر کااستعمال ہوتاہی نہیںہےتو "شجرۂ اشتر"کی بات کہاں کی دانشمندی۔۔۔۔۔؟

گوندرشک رام پوری
کتاب نما ۔دسمبر1993ء صفحہ نمبر85
قابل تحسین وآفریں ہیں جناب فرازبندہ نوازکہ صرف بائیس سال کی عمر میں جیساکہ انہوں نے اپنی عمرکاگراف تحریر فرمایاہے۔عروض جیسے دشوارگزار فن پراتنی دسترس حاصل کرلی کہ رباعی کے چوبیس اوزان میں تیس کامزیداضافہ کردکھایا ہے۔
محترمہ شگفتہ طلعت سیما کلکتہ کتاب نما ستمبر ص76
اپریل کاشمارہ نظرنواز ہوا ،پروفیسر گوپی چندنارنگ اور فرازبنداہ نواز کے مضامین اس شمارے کی جان ہیں، دوسری قسط کا شدت سے انتظارہے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages