Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Mehdi Partabghari Taruf Wa Ghazal

  مہدی پرتاپگڈھی 

 عصرِ حاضر کے شعری منظر نامہ میں مہدی پرتاگڈھی صاحب کا شمار اکابرین کی صفِ اول میں کیا جاتا ہے۔ان کے فکر وفن کا اعتراف کرنے والوں میں ناوک حمزہ پوری‘کر امت علی کرامت‘مناظر عاشق ہرگانوی‘عنوان چشتی‘محبوب راہی‘بشیر بدر‘تابش مہدی:نازش پرتاپگڈھی‘عشرت ظفر‘سعید عارفی‘شان فخری اور ان جیسے متعدد بلند پایہ مشاہیرِ ادب نے بڑے واشگاف لفظوں میں کیا ہے۔ ان حضرات کی آراء کی رو سے مہدی صاحب کی شاعری ہمارے عہد کا ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے جس کی دیواروں پر زخموں کے چراغ روشن ہیں۔اس میں داخل وخارج کے دکھ درد کی تہذیب وتادیب‘انسان کی پیچیدہ سائیکی کا عکس‘صحتمند قدروں کا احترام‘طنز کی کاٹ اور معصومیت کی لطافت کے ساتھ حسنِ تغزل کی چاشنی بھی ہے۔ مختصر یہ کہ انکی غزل ہمارے عہد کا ایک خوبصورت آئینہ خانہ ہے جس کی تشکیل میں ان کی فکری طہارت اور خدا داد صلاحیت شامل ہے۔ اصل نام مہدی حسن ہے اور مہدی پرتاپگڈھی ادبی شناخت۔والدِ ماجد کا اسمِ گرامی منشی محمد علی ہے۔تعلیمی سند کے اعتبار سے ولادت۱۵؍جون ۱۹۳۴؁ء کو ہوئی۔گزشتہ نصف صدی سے شعری سفر جاری ہے۔ملک وبیرونِ ملک کے رسائل میںان کا کلام کثرت سے شائع ہوتا ہے۔ غزلوں کے چار مجموعے شائع ہوکر پزیرائی حاصل کرچکے ہیں۔اتر پردیش اور میرؔ اکاڈمیوں نے انہیں ایوارڈ سے نوازا ہے۔غزلوں اور طفلی نظموں کے دو مجموعے اشاعت کے منتظر ہیں۔زیرِنظر غزل فکری جہات کے در وا کرتی ہے۔آج کی بدلتی ہوئی قدروں اور منفی رویوں کامنظر ہر کسی کواندیشہ ہاے ٔ دور دراز میں مبتلا کرنے کے لئے کافی ہے۔ رابطہ:۔28؍ اسکول وارڈ۔پرتاپ گڈھ 230001۔ (یو۔پی)
 غزل
     
وقت کا آخر کیا ہے تقاضہ سوچوں میں
کیسے بدل جائے دنیا سوچوں میں

کیا ممکن ہے پھر یہ معجزہ سوچوں میں
دریا دیدے مجھے راستہ سوچوں میں 

تہذیبِ نو کا خورشید تو سر پر ہے
انسانی رشتوں کا اندھیرا سوچوں میں

کیا اب کوئی کرشن نہیں ہے دھرتی پر
بھٹکے ہے کیوں آج سداما سوچوں میں

دور اندیشی کی یہ کون سی منزل ہے
کام کروں کم اور زیادہ سوچوں میں

زمیں تو مجھ پر تنگ ہوئی جاتی ہے مگر
آسمان سارا ہے اپنا سوچوں میں

فہم وفراست کے سارے در بند ہوئے
کدھر عافیت کا ہے راستہ سوچوں میں

اک اندیکھی قوت راہ دکھاتی ہے
مستقبل کا جب بھی خاکہ سوچوں میں

حال کے لمحوں سے میں کشیدوں عطرِحیات
مہدی ؔکیوں اندیشۂ فردا سوچوں میں
        

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages