اس شہرِ بے وفا میں ٹھہر جاؤں کیا کروں
دل کی لگی سناؤں یا گھر جاؤں کیا کروں
دستک میں دوں تو رسوا کریں گے انھیں عوام
گھبرا کے دردِ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
خلوت میں مجھ سے ملنے وہ خود آرہے ہیں آج
’’اتراؤں‘ روٹھ جاؤں‘ سنور جاؤں کیا کروں
ان کو نہیں پسند مرا نام اور نمود
شہرت کدے سے خود ہی اتر جاؤں کیا کروں
اترا رہے ہیں اپنے وہ حسن و جمال پر
مضطرؔ میں اپنی حد سے گزر جاؤں کیا کروں
مضطر افتخاری
166/H/84.Kesab ChandraSenStreet.Kol-99
No comments:
Post a Comment