Breaking

Post Top Ad

Friday, August 14, 2020

قمرؔ سیوانی کی کائناتِ رباعیات Qamar Sewani Ki Kainaat e Rubiyaat

افلاک کے میدان میں جایے گا کون
مہتاب کا گھر روند کے آیے گا کون
اس دور میں اقبالؔ کہاں ہے کوئی
شاہین کے رتبے کو بڑھایے گا کون

ہر خار سے پھولوں کی ادا روٹھ گئی
صیاد سے گلشن کی فضا روٹھ گئی
ڈوبا ہے پسینے میں سراپا اس کا
سورج ہے پریشان ہوا روٹھ گئی

دیواروں سے لپٹی ہوئی کچھ تصویریں
چاٹی ہوئی دیمکوں کی کچھ تحریریں
احساس کی انگلی سے مری پلکوں نے
خوابوں کو کریدا تو ملیں تعبیریں

جنگل کو بیابانوں کو صحراؤں کو
تپتے ہویے ہر کھیت کی آشاؤں کو
اس سال ملاقات نہیں ہے ممکن
برسات نے خط لکھا ہے دریاؤں کو

آنسو نہ بیاباں میں بہایا جایے
خشکی پہ سمندر کو نہ لایا جایے
کام آیے گا یہ وقتِ ضرورت تیرے
انمول خزانہ نہ لٹایا جایے

صحرا کی فضا دیتی ہے آواز مجھے
گلشن کی ہوا دیتی ہے آواز مجھے
شاید ہے وہ اس وقت پریشانی میں
ساون کی گھٹا دیتی ہے آواز مجھے

بجلی سے گھٹاؤں کی بغاوت کیا ہے
آکاش پہ دھرتی کی سیاست کیا ہے
غصے میں بنا دے نہ کہیں دن کو
 رات سورج سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے

تاریک فضاؤں میں جگنو کی کتاب
اللہ کی قدرت کے جادو کی کتاب
لیٹے ہویے بستر پہ ہوا کے ہر پھول
پڑھتا ہے بڑے شوق سے خوشبو کی کتاب

پتّا پتّا مستی میں ڈولے گا
جو پیڑ ہے چُپ وہ بھی زباں کھولے گا
خاموش کناروں کے کھڑے ہوں گے کان
جب بادل دریاؤں سے بولے گا

ظلمت میں بھی بیچوں گا نہ دستارِ خودی
وقت آنے پہ ہوجایے گی خود پوری کمی
اے چرخ جلا لوں گا غمِ دل کا چراغ
میں بھیک ستاروں سے نہ مانگوں گا کبھی 

سر دھوپ کا قدموں سے کچل ڈالا ہے
کرنوں کے سراپے کو بدل ڈالا ہے
آکاش پہ اک شور ہے اک پاگل نے
سورج کے کلیجے کو مسل ڈالا ہے

کس طور سے کرتی ہے محبت دیکھو
غصے میں جو شدت ہے وہ شدت دیکھو
سورج سے بغاوت پہ اتر آئی ہے
برفیلی ہوا کی تو یہ ہمت دیکھو

جب پھیلتی ہے ذہن پہ احساس کی دھوپ
اس دھوپ سے ملتی ہے گلے آس کی دھوپ
اس وقت نظر اٹھتی ہے بادل کی طرف
جب لب پہ اتر آتی ہے پیاس کی دھوپ

ہاتھوں میں رکھ عزمِ محکم کی ڈھال
ہر منڈلاتے خطرے کو سر سے ٹال
کچھ اور ہیں طوفانی ہوا کے تیور
طاقوں پہ جو روشن ہیں چراغ ان کو سنبھال

کہتی ہے قمرؔ دل سے مرے میری لگن
دامن میں سمیٹوں گی میں درِّ عدن
مجھ کو ہے یقیں دور اندھیرا ہوگا
پھوٹے گے جبینِ غمِ وحشت سے کرن


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages