Breaking

Post Top Ad

Friday, July 31, 2020

Zaheer Ghazipuri Ki Aakhiri Ghazal آخری غزل ظہیر غازیپوری

آخری غزل

ظہیر غازیپوری(مرحوم)

(نوٹ: یہ غزل ہمیں ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو ملی ۔ساتھ میں ان کی شاگردہ شفیق پروین کی غزل بھی تھی۔خط میں لکھا تھا کہ ہفتوں صاحبِ فراش رہنے کے بعد ذرا طبیعت سنبھلی  تو بیٹھنے کے قابل ہوسکا۔اپنی غزل کے ساتھ شفیق پروین کی غزل بھی بھیج رہا ہوں۔انھیں خریدار بننے کے لیے کہہ دیا ہے۔وہ جلد ہی اپنا زرِ سالانہ ارسال کرنے والی ہیں۔اس کے تین دنوں بعد یعنی ۳؍نومبر کو موصوف کے انتقال کی خبر سن کر دلی صدمہ ہوا۔وہ ایک مستند اور معتبر قلمکار ہونے کے علاوہ نہایت خلیق اور ادب پرور انسان بھی تھے۔ان کی رحلت بلاشبہہ اردو زبان وادب کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ادارہ ان کے لواحقین کے اس غم میں برابر کا شریک ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔آمین)  


کھینچو نئے گراف نئے دائرے بناؤ
اب بڑھ رہا ہے حد سے نئی فکر کا بہاؤ
میں ختم کرچکا ہوں تعاقب کا سلسلہ
کرنے لگے ہیں خود مرے الفاظ اب گھراؤ
ہم رشتہ جو نہ کر سکے لفظوں کو فکر سے
اب ان کو ضابطوں کے نئے آئینے دکھاؤ
پانی کا تیز ریلا نہ آئے خدا کرے
کچھ منچلوں کا ریت کے ٹیلے پہ ہے پڑاؤ
کب تک میں اپنے زخم کا مرہم بنا رہا
اب یاد بھی نہیں ہے کسی حادثے کا گھاؤ
بیٹھے ہوئے ہو لوگو! یہاں کیوں بجھے بجھے
موسم ہے بے مزہ تو لطیفہ کوئی سناؤ!
بے چہرگی کے دور میں پہچان کے لئے
احساس کی نظر کو ظہیرؔ آئینہ بناؤ  

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages