Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

ڈاکٹر سید منیرالدین سحرؔ سعیدی نہیں رہے

 ڈاکٹر سید منیرالدین سحرؔ سعیدی نہیں رہے
اورنگ آباد (دکن) کے ممتاز شاعر اور ادیب ڈاکٹر سید منیر الدین سحرؔ سعیدی طویل علالت کے بعد ۷۷؍سال کی عمر میں ۲۶؍جنوری ۲۰۱۷ء کو اورنگ آباد میں انتقال کر گئے۔
ڈاکٹر سحرؔسعیدی ۱۸؍مئی ۱۹۴۰ء کو اورنگ آباد کے سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۲ء میں آپ نے کلرک کے طور پر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں ملازمت کا آغاز کیا اور ۱۹۹۹ء میں سینئر اسسٹنٹ کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہوئے۔ دوران ملازمت انھوں نے میسور یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے کیا۔ ۱۹۸۷ء میں مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں آزادانہ طور پر ’’شیخ چاند۔حیات اور ادبی خدمات‘‘ پر مقالہ پیش کر کے پی ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ یہی مقالہ ۱۹۹۸ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔
سحرؔسعیدی ایک خوش فکر شاعر تھے۔ ان کی غزلوں کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’مضراب‘‘ (۱۹۷۸ء) ، ’’کمندہوا‘‘ (۱۹۸۰ء) ، شعرخوشبو لے‘‘ (۱۹۸۷ء) اور ’’شعرمیرا شوق انگیز‘‘ (۲۰۱۵ء) اردو حلقوں سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں۔
۲۰۰۷ء میں سحرؔسعیدی نے معروف محقق شیخ چاند کے شائع شدہ تمام مضامین کو نہایت تگ و دو کے بعد حاصل کیا اور انھیں ’’مضامین شیخ چاند‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ مقتدر اخبارات اور رسائل میں شائع شدہ اہم ادبی مضامین اور شذرات کی فوٹو کاپیز کو انھوں نے ’’ادبی تراشے‘‘ کے عنوان سے ۱۵؍ضخیم جلدوں میں مرتب کیا جو ریسرچ اسکالرز کے لیے ایک قیمتی خزانہ ثابت ہورہا ہے۔ حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد ۲۰۱۵ء میں مرحوم نے اپنی خودنوشت سوانح ’’گلابوں کی مہک‘‘ شائع کی۔ ۲۰۱۶ء میں دکن کی مشاہیر ادبی شخصیات پر تحریر کردہ ان کے مضامین کا مجموعہ 
پسماندگان میں تین بیٹیاں ، بھائی اور بہنیں اور ان کی اولادیں ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages