Breaking

Post Top Ad

Tuesday, October 2, 2018

زندگی کا ترجمان شاعر۔غلام سرورہاشمی

 زندگی کا ترجمان شاعر۔غلام سرورہاشمی
شارق عدیل
At/P.O:Marhera-207401
Dist:Etah-(U.P).

ردو زبان کے شعری گلیاروں میں اگر کوئی مقبول ترین شعری صنف ہے تو وہ بلا مبالغہ غزل ہی ہے۔اس کے کہنے والے لا تعداد ہیں‘ اور سننے والے بھی۔کیونکہ اس کی دو مصرعی اداؤں پر ایک عالم فریفتہ ہے۔
اسی بنا پر اسے مشاعرے کے نام سے رات رات بھر سنا جاتا ہے۔اور واہ واہ کے شور سے نیند اس قدر ڈر جاتی ہے کہ آنکھوں میں اُترنے کے خیال سے بھی دور رہتی ہے۔غلام سرورؔ بھی مشاعرے کے بہترین اور کامیاب شاعر ہیں۔کیونکہ خالقِ ارض و سماء نے انھیں سُریلی آواز کے جادو سے نواز رکھا ہے جو آج کے مشاعرے کی اہم ضرورت میں شامل ہے۔ اور اس پر غلام سرورؔ کی غزل سامعین کے دلوں کو اپنی گرفت میں لینے کی غرض سے انسانیت کے پیغام کو اس انداز سے عا م کرتی ہے کہ لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صرف غلام سرورؔ کو ہی سنتے رہیں۔ لیکن غلام سرورؔ مشاعرے کی مقبولیت اور شہرت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لئے ادبی منظر پر بھی نظر رکھتے ہیں۔اور ادبی رسائل و جرائد کو بھی اپنے مطالعہ میں رکھتے ہیں‘اور اپنے کلام کی اشاعت سے بھی غافل نہیں رہتے ہیں۔
چونکہ موصوف پڑھے لکھے انسان ہیں ‘درس و تدریس سے وابستہ ہیں  اس لئے جب بھی وہ تخلیقی وجدان سے ہمکنار ہوتے ہیں تو صرف محبتیں ہی ان کے احساسات میں گردش کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
اس کا چہرا ابھرنے لگتا ہے
دل کو جب آئینہ بناتا ہوں
تم مجھے دل سے بھلادو یہ تمھاری مرضی
میں نہیں تم کو کبھی دل سے بھلانے والا
یہ اشعار غزل کی دیرینہ روایت کی امین ہیں‘اور یوں بھی محبوب کی گلی میں فکر کی گلکاریاں جذبات کی تابع ہی رہا کرتی ہیں ۔غلام سرورؔ کی غزل میں وقت کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے وہ فضول وقت برباد کرنے والوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آج کے بہت سے نوجوان تعلیمی لمحوں کو بھی واٹس اَیپ اور فیس بُک کی نذر کر دیتے ہیں اور ان کا یہ مشغلہ ان کے بہترین مستقبل کی لو کو مدھم کرسکتا ہے۔

وقت مٹھی سے نکل جائے گا بالو کی طرح۔ہوش میںآذرایوں وقت گنوانے والے
وقت کی قدر کرو دل سے ہمیشہ سرورؔ 
کیونکہ یہ وقت نہیں لوٹ کے آنے والا
مذکورہ اشعار کی معنویت اس بات کی گواہ ہے کہ شاعر وقت کی دل سے قدر کرتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو بھی تاکید کرتا ہے کہ وہ وقت کا احترام کریں اور اس کے پابند رہیں۔شاعر ‘گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت پر بھی زور دیتا ہے۔
ہمارے ملک کی تہذیب جو قائم ہے صدیوں سے
اسے ہر حال میں ہم کو بچانے کی ضرورت ہے
غلام سرورؔ کے بعض اشعار ماں کی عظمت و محبت سے بھی تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اشعار پر سامعین داد دینے کے جوش میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی ماؤں کے فرماں بردار نظر آتے ہیں۔اس کے باوجود بھی بہت سی مائیں اپنے گھروں میں ناقدری کازہر پینے پر مجبور ہیں۔
یوں ماں کی دعا کرتی ہے سر پر مرے سایا
نزدیک مرے کوئی بلا تک نہیں آتی
سرور ؔ تمھارے ساتھ ہوںگر ماں کی دعائیں
منزل کوپانا پھر کوئی دشوار نہیں ہے
غلام سرورؔ کی غزل زندگی کے حقیقی رنگوں سے عبارت ہے۔اس لئے وہ اپنے عہدکے انسانوں کو زندگی کے اصل مقاصد سے باخبر کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور صداقت سے انحراف کرنے والے اس دور میں یہ شعری عمل قابلِ قدر ہے۔
دل کا سکون لوگوں کو دینے کے واسطے۔خود چھاؤں بن کے دھوپ میں جانا پڑا مجھے
آگ نفرت کی لگادیتے ہیں دنیا میں یہی۔زہر آلودہ خیالات سے جی ڈرتا ہے
کرتے رہے جو دشمنی ہر وقت میرے ساتھ۔میں ان کی مشکلوں میں مددگارہو گیا 
ہم کو نگاہِ بد سے بچانا تواے خدا۔حالت ہمارے ملک کی ہموار نہیں ہے
ان اشعار کی معنی کی دشائیں مختلف ضرور ہیں‘لیکن شاعر اپنے ہر شعر میں انسانیت کا علمبردار ہی نظر آتا ہے۔ غلام سرورؔ کی شاعری میں محسنِ انسانیت رسول اکرمؐ اور ان کے خاندان والوں سے محبت و عقیدت کے جذبات بھی پوری ایمانی 

کیفیت کے ساتھ فروزاں ہوتے ہیں ۔دو مثالیں دیکھئے:
یہ مرے آقا کی چشمِ فیض کا ہے معجزہ
جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کر دیا
 حق کا پرچم لئے ہاتھوں میں وہی آلِ رسول
اپنے ہی خون کے دریا میںنہانے نکلے
غلا م سرورؔ کی غزل میں میل ملاپ کی جو خوشبوئیں ہیں وہ انتقام و مایوسی جیسے فضول جذبوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتی ہیں۔کیونکہ زندگی نفرت کے اندھیرے میں اپنی معنویت سے بیگانہ ہو جاتی ہے اور انسان کو وحشی اور درندوں کی صفت میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے جو غلام سرورؔ کی انسانیت پسند فطرت کے منافی ہے۔ اس لئے وہ اپنی شاعری میں امن و سلامتی کے پیغامبر کی صورت میں ہی نظر آتے ہیں۔
اس وقت اردو زبان کے تخلیقی علاقوں میں صوبۂ بہار کے قلم کاروں کی ذہانت ہرادبی شعبے میں اپنے ہو نے پر اصرار کر رہی ہے اور غلام سرور ؔ بھی گوپال گنج (بہار) کی ادب پرور مٹی کی ہی پیداوار ہیں ‘اس لئے ان کے مستقبل میں مزید بہتر شاعری کی امید کی جاسکتی ہے۔٭٭٭
(بقیہ دلوں کے داغ چھپاؤ)
مگر امی جان کے کان پر جوں نہیں رینگی وہ ماحول سے بے نیاز بن کر آئے ہوئے میرے عید کے کپڑے انہماک تہہ کرتی رہیں۔آداب پھوپھی جان ۔۔۔۔۔!
دلرس آپا ایک ہاتھ سے بچے کو تھامے دوسرے ہاتھ سے ساس کے پاؤں چھونے کو جھکیں‘مگر انھوں نے کوئی جواب دئے بغیر اپنے پاؤں اس طرح سمیٹ لئے جیسے کسی گندگی سے بچنے کی کوشش کر رہی ہوں۔چند لمحے خاموشی رہی‘  پھر اس کڑوی کسیلی خاموشی میں سلمان بھائی کی بھرائی ہو ئی آواز گونجی،امی جان! میں تو یہی سمجھ کر آیا تھا کہ آپ پُرانی تلخیاں بھلا چکی ہوں گی‘میں آپ کے لئے بیٹا نہ سہی مگر آپ میرے لئے ماں ضرور ہیں۔میں یہاں اپنی امی سے ملنے آیا تھا مگر آپ کی سرد مہری اور بے اعتنائی نے میرے حوصلے پست کر دئے ہیں،لہٰذا اب اپنا ارادہ بدل دینے پر مجبور ہو گیا ہوں،میں ابھی چند منٹ میں آپ تمام کی دعائیں لے کر لوٹ جاؤںگا۔جواب میں ایک خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا مگر امی کے ہاتھ ضرور گئے تھے ۔
امی جان! سلمان بھائی کی آواز پھر آئی۔کاش آپ اپنا غصہ بھول کر اپنے فیصلے پرٹھنڈے دل سے نظر ثانی کر سکتیں۔کیا ایک بھائی کی احمقانہ حرکت سے پیدا شدہ تلخی اور رنجش کا ناطہ اپنی اولاد کی خواہشات اور تمناؤں سے جوڑ کر حالات کو مزید بگاڑا جا سکتا ہے ۔کیا ایک جہاں دیدہ بزرگ اور شفیق ماں سے اپنے بیٹے کے لئے ایسے انتہائی اقدام کی امید کی جا سکتی ہے۔ لوگ دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ‘کہیں کسی کے زخم اس طرح سدا ہرے نہیں رہتے‘زمانہ سب سے بڑا حکیم ہے جو گہرے سے گہرے زخم مندمل کر دیتا ہے‘لیکن آپ جان بوجھ کر اپنے زخموں ہرا رکھنے پر تل گئی ہیں‘آپ تنگ نظری کو خیر باد کہہ کر فراخ دلی کو اپنائیں۔دنیا میں اچھے لوگوں کے انمنٹ نقوش بن کر ہمیشہ باقی رہتے ہیں‘جنھیں ان کی آئندہ نسلیں سر آنکھوں سے لگا تی ہیں اور ان کے تقدس کو زندہ رکھتی ہیں ‘کیا آپ ایسی ہی ایک روشن مثال قائم نہیں کریں گی؟
ٹپ۔۔۔۔۔!ایک لرزتی کانپتی بوند امی کی آنکھ سے ٹپکی اور ان کے دو پٹے میں جذب ہو گئی ۔مجھے امید نہیں تھی کہ آپ اپنے فیصلے پر آج بھی اسی طرح اٹل رہو گی اور میں اتنا بد نصیب ہوںگا ‘کوئی بھی ماں اپنے بچے کی ایک دن کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتی۔لیکن دو برس گزر جانے کے با وجود اپنے خاطی اور نادان بیٹے کو معاف کرنا تو درکنار اس کی صورت تک کی روادار نہیں ہوئیں۔چلئے میں گناہ گار سہی اور میرا جرم ناقابل معافی سہی لیکن کم از کم معصوم اور بے گناہ پوتے کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کے دو بول ضرور کہہ دیں کہ اس کا نصیب ہم جیسوں کا سا نہ ہو۔ یہ کہہ کر سلمان بھائی نے آپا کو شارہ کیا انھوں نے آگے بڑھ کر آٹھ ماہ کے بچے کو امی کے گود میں ڈال دیا ۔امی جیسے گہرے نیند سے چونکیں۔انھیں غالباً اس اچانک اقدام کی توقع نہ تھی ۔لا شعوری طور پر ان کے ہاتھوں نے بچے کو تھام لیا ‘اگلے ہی لمحے وہ چیخ اٹھیں اے دور ہو‘میرے کپڑے ناپاک کر دے گا۔ارے سنبھالو اسے ۔۔۔۔۔۔!
مگر کسی کے سنبھالنے سے پہلے ہی خاموش ہو کر ٹکٹکی لگائے بچے کو تکنے لگیں ۔بچہ خود بھی ان کی طرف نظر جمائے انھیں تک رہا تھا ،دادی کو اس طرح اپنے طرف دیکھتے دیکھتے مسکرایا اور دونوں ہاتھوں سے ان کا چہرہ پکڑنے کی کوشش کرنے لگا ۔
ٍ روئی کے گالے جیسے سفید اور پیارے پیارے بچے کو کوثر تسنیم میں دھلی پاک مسکراہٹ‘وہ مسکراہٹ جس نے کسی فاتح قوم کی طرح اپنے دشمنوں کی تلواریں نیچی کردی ہیں۔جلادوں کے پتھر جیسے موم کر دیتے ہیں،آج اس مسکراہٹ کی تپش نے اس چٹان کو پگھلنے پر مجبور کر دیا تھا جو دو برس تابڑ توڑ ضربوں کے باوجود ایک رتی نہ ٹوٹ سکی تھی۔ کسی کو آگے بڑھ کر بچے کو سنبھالنے سے پہلے ہی میں نے جوش کھائی ہوئی اس موج خون کو دیکھا جو دادی کے دل سے پھوٹ نکلی تھی۔ وہ بے اختیار روبے خود ہو کر اس معصوم فرشتے کو اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں تھام کر چند لمحے اپنی پر نم آنکھوں سے اسے تکتی رہیں۔ پھر اپنے کلیجے سے اس طرح چمٹا لیا جیسے وہ اس کا گم گشتہ ٹکڑا ہو۔ ان کا سارا غصہ اور غضب شفقت کے دھار میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔
سب حیرت و مسرت کے عالم میںاس چٹان کو پگھلتے دیکھتے رہے۔ دفعتاً اباجان کی آواز اس خاموشی میں گونجی۔اللہ تیری شان۔ اللہ تیری شان۔ جو کام بڑوںسے برسوں میں نہ ہو سکااسے ایک شیر خوار بچے نے چٹکیوں میں کر دکھایا،بس اب پُرانی باتیں بھول جاؤ اور خوش رہو۔ بقول شاعر۔لاحول ولا قوۃ۔بھلا سا شعر ہے جو ذہن سے اُتر گیا ہے‘کمبخت شاعر نے غالباً اسی گھڑی کے لئے کہا تھا ۔بھلا وہ کیا شعر ہے سلمیٰ 
۔۔۔۔۔۔!
میں نے رندھے ہوئے اور جذبات سے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔
دلوں کے داغ چھپاؤ ہنسی کو عام کرو۔ یہ حکم ہے کہ بہاروں کا احترا م کرو٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages