Breaking

Post Top Ad

Friday, October 12, 2018

گھر کی لچھمی

       گھر کی لچھمی        


ضیارومانی کولاری

۔۔۔۔۔۔۔۔.............۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
کال بل کی آواز جو آئی شبانہؔنے دروازہ کھولا،باہر مدن موہنؔ کھڑا تھااس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیزمسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔اس کی شکل و صورت سے ہی ظاہر تھا کہ وہ ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، عمر یہی ۲۰،۲۵کے درمیان ،درمیانہ قدوخال ، گوری رنگت، متین گول چہرہ،کلین شیو،سلیقہ سے ترشے ہوئے بال، نفیس لباس،پہلی نظر میں تو وہ ایک مہذب اور با اخلاق نوجوان لگتا تھا۔مگر حقیقت میں وہ تو دولت اور حسن کا متوالا،ایک رنگین مزاج نوجوان تھا۔اس کی چھبتی ہوئی تیز و طرار ،چمکدار تیرکش نگاہیںاس کی ذہانت کا مظہر،وہی تو اس کی کامیاب زندگی کا ایک انمول سرمایہ تھیں۔                                                                            
جیسے ہی شبانہؔکی آنکھیں اس سے چار ہوئیں، اس کے جسم میں ایک بجلی سی کوندھ گئی،لمحہ بھر کے لئے وہ حواس باختہ رہ گئی۔                                                        
۔۔’’کون ہے؟‘‘۔۔وہ اپنے ڈیڈی کی آواز پر ہوش میں آئی،اس نے درازہ کھلا چھوڑبغل والے کمرے کا رخ کیا۔سامنے اس کے ڈیڈی امیر صاحبؔصوفہ پر نیم دراز اخبار بینی میں مصروف تھے جب ان کی نظر مدن موہنؔ پر پڑی تو وہ اس کی طرف لپک پڑے۔۔’’ارے تم! مدن موہنؔ؟۔۔آئو بھئی۔۔اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔۔اتنی صبحْ؟۔۔کیسے آنا ہوا؟‘‘۔۔                        
۔۔’’کل ہمارے نئے گھر کی ’گرہا پرویشا‘یعنی اوپننگ سرمونی ہے، یہ لو ’انویٹی شن‘ تم بھی اپنی فیملی کو ضرور لے آنا‘‘۔۔اس دوران وہ تو بظاہر امیر صاحبؔ سے مخاطب تھامگر اس کی چور 

نگاہیں بغل والے کمرے پر منڈلا رہی تھیں۔ اس کی اس حرکت پر امیر صاحب ؔ نے اس وضاحت کو ضروری سمجھا۔۔’’یہ تو میری اکلوتی بیٹی شبانہؔ ہے‘‘۔۔پھر خود ہی کچھ سوچھ کر انہوں نے موضوع تبدیل کیا۔۔’’اچھا تو ہمارے فینانس کا کیا ہوا؟۔۔۔بیٹھو نا‘‘۔۔                                   
من موہن نے برجستہ جواب دیا۔۔’’سمجھو کہ اب تمہارا کام بن گیا۔۔پرسوں تمہیں کیاش مل جائے گا‘‘۔۔اس اطلاع پر امیر صاحبؔکا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا۔’’تھیانک یو‘‘۔۔پھر شبانہ کو آواز دی۔۔’’ارے شببوؔبیٹا! ذرا اِِدھرتو آنا۔۔موہن بھیاء کے لئے کچھ ٹریٹ کا انتظام تو کرنا‘‘۔۔ وہ چائے  بسکٹ کے ساتھ فوراً حاضر ہوگئی۔                                                             
پہلے تو اس نے رسماًانکار کیامگر جب شبانہؔنے ایک ملتجانا نظر اس پر ڈالی تو سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا اور چائے کی چسکیاں لینے لگا۔شبانہؔ کی کھلتی جوانی کی مہک فطرتاً اس میں تمناء قرب بیدار کر رہی تھی۔ویسے بھی حسن اور شباب اس کی کم زوری تھی۔وہ ایساکمیاب موقعہ کیسے کھو سکتا تھا؟ اس پر امیر صاحبؔ کا اصرار اسے اور کچھ دیر کے لئے یہیں خیمہ زن ہونے پر مجبور کر رہا تھا۔اُدھر شبانہؔ مدن موہن کی نگاہوں کی تپش کو کافی دور سے ہی بھانپ چکی تھی۔جس کے سبب اس کا تن بدن پسینہ سے شرابور ہو چکا تھا۔وہ مسحور کن نگاہیں اسے ایک مقناطیس کی مانند اپنی جانب کھینچ رہی تھیں۔وہ ایک عجب مدہوشی کے عالم میں کسی مسحور ناگن کی طرح  بل کھاتی جھومتی ہوئی آگے بڑھنے لگی اور اِدھران کوائف سے بے خبر امیر صاحبؔ ایک مست اناونسر کے انداز میں رسمِ تعارف ادا کر رہے تھے۔۔’’یہ ہمارے شہر کے سب سے بڑے فینان سرسری مدن موہن کھرانا جی ہیں‘‘۔۔اس نکتہ پر آکر انہیں خیال ہی نہ رہا کہ وہ کیاکہہ رہے ہیں؟ ا۔۔’’اور یہ ہے ہمارے گھر کی لچمی ہماری اکلوتی بیٹی شبانہ ملنسارؔ اوریہ جیسا نام ہے ویسی ہی ملنساراور ہر دل عزیز ہے،مل لو بیٹے ان سے مل لو‘‘۔۔اندھا کیا چاہے دو آنکھ،موہن نے 
نمسکار کرتے ہوئے محض وقت گزاری کی خاطر دریافت کیا۔’’کیا تم لوگ بھی لکشمی دیوی کو مانتے ہو
ہو؟‘‘                                                                              
اس سوال پر وہ کچھ سٹپٹا سے گئے تاہم ان کی صفتِ حاضر جوابی نے انہیں ساتھ دیا۔۔’’بس۔میں اپنی بات تمہارے انداز میں بتا رہا تھا۔۔ ہم اپنی زبان میں اسے۔۔ کیا کہتے ہیں؟ یہ ہمارے گھر کی زینت ۔۔نور نظر، لختِ جگر۔۔، دل کا ٹکڑا۔۔آنکھوں کی ٹھنڈک ۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔ ہاہاہا‘‘۔اور خود اپنی پیٹھ آپ تھپتھپانے لگے۔                                              
۔۔’’پرانی شراب نئی بوتل میںیعنی میرا مطلب سیم وائین بٹ ان ڈفرنٹ باٹلس‘‘۔۔اس طرح موہنؔ نے بھی اپنی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔۔۔’’ہاہاہا‘‘۔۔امیر صاحب ؔنے کھسیانی ہنسی ہنس کراپنی سمجھداری کا ثبوت دیا۔                                                                  
موہنؔکسی رپورٹر کی طرح دوسرا سوال چھیڑ بیٹھا۔۔گوشہ(غوشہ) پردہ ،اسکارف اور بُرکا(برقع)کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔۔                                        
امیر صاحبؔ نے اس سوال پر کچھ ناک بھوں چڑاتے ہوئے ڈرامیانہ انداز میں کہا۔۔’’یہ سب فرسودہ رسوم ہیں۔آج کل کے ماڈرن پیریڈ میںیہ سب فِٹ نہیں ہوتے۔اس ترقی کے دور میں یہ سب واہیات رسم و رواج  ہماری ترقی میںروڑے اٹکاتی ہیںاورعورتوں کی آزادی ختم کرتے ہیں،یہ ان کے ساتھ سرا سر نا انصافی ہے۔آج انہیں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہئے۔عورت کو اس طرح چہار دیواری میں قید کردینا،یہ سب ان پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘۔۔پھر اپنا سینہ ٹھونک کر فخریہ انداز میں گویا ہوئے۔۔’’میں نے تو اپنی بچی کو پوری آزادی دی،پڑھایالکھایا،اعلیٰ تعلیم دی، اپنی مرضی کا مالک بنایا۔۔۔۔‘‘۔۔                                                                 
۔۔’’ری یلی آپ ایک براڈ مینڈڈ انسان ہیں‘‘۔۔امیر صاحبؔ اپنی تعریف سنکر خوشی  
سے جھوم اٹھے۔۔’’تم نے ٹھیک سمجھا۔ورنہ آج کل کے یہ لکیر کے فقیر تو کچھ سمجھتے ہی نہیں،وہی پُرانا راگ الاپتے رہتے ہیں،یعنی عورت شرم و حیا کی آن ہے مہروفا کی جان ہے،گھر کی زینت 
ہے ۔ہاہاہا۔۔انہیں سمجھائیں تو سمجھائیں کیسے؟‘‘۔۔اس طرح امیر صاحب ؔبے تُکی باتوں پر اُتر آئے۔
اس دوران موہنؔ نے مصافہ کے لئے بِلا جھجک شبانہؔ کی جانب اپنا ہاتھ بڑھا دیا،یہ اتفاق ہی تھا کہ شبانہؔ نے ٹرے کو ٹی پائی پر رکھتے ہوئے موہنؔ کو نمسکار کیااور بے ساختہ اس کا ہاتھ بھی موہنؔ کی جانب بڑھ گیا، پراس کی اجازت طلب نگاہیں اپنے والد کی طرف تکنے لگیں۔امیر صاحبؔ نے موقعہ کی نزاکت کو دیکھ کر اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی۔۔’’ارے! محض ہاتھ ملانے میں کیا ہرج ہے؟ یہ تو آج کل کا فیاشن ہے ہر کوئی ہر کسی سے ہاتھ ملا لیتا ہے۔ خواہ دل ملے نہ ملے۔۔ہاہاہا۔اور ہاں! ویسے  ہمارا مذہب ہر ایک کی  جانب ہمیں دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تلقین کرتا ہے ۔ہاہاہا۔‘‘۔۔                                                                 
مدن موہنؔ نے جب حالات کو اپنے لئے سازگار دیکھا تو آہستہ سے شبانہ کے نرم و نازک ہاتھ کو تھام لیا اور اقرارکرنے لگا۔۔’’ میں اسی لئے آپ کے مذہب کو اور آپ کو بہت چاہتا ہوں، واقعی آپ کا مذہب ایک ماڈرن مذہب ہے، یہ بہت ہی لچکدار مذہب ہے،آپ لوگ بہت ہی ملنسار لوگ ہیں۔۔ وہ عید کے دن آپ لوگوں کا گلے ملنا،ایک دوسرے کو عید کی بدھائی دینا،بہت اچھا لگتا ہے، آپ کی عورتوں کا لباس، بنائو سنگہار، مہندی، بہت خوب رہتا ہے‘‘۔۔                       
امیر صاحبؔ موہنؔ کی لچکدار والی بات پر کچھ چونکے تو تھے۔مگر انہیں مطلب فینانس سے تھا۔جو کہ اب ان کے کاروباری فروغ کیلئے  بہت ضروری تھا۔لہذا اپنے کاروبار کی خاطر انہوں نے اپنے خیالات اور چال چلن میں کچھ لچک لا نے ہی میں اپنی بھلائی سمجھی۔                    
مدن موہن اپنی اس کامیابی پرکندھے اچکاتے ہوئے فلمی انداز میں شبانہؔ سے مخاطب ہوا۔۔’’ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے، آئی ایم ہیاپی ٹو میت یو‘‘۔۔پھر امیر صاحبؔ سے کہنے 
لگا۔۔’’تمہاری  ڈاٹر تو بہت بیوٹی فل ہے‘‘۔۔موہنؔ کے مونہہ سے اپنی بیٹی کی تعریف سنکر وہ کھِل 
اٹھے۔
شبانہؔ ایک لمحہ کے لئے اپنے کمرہ میں داخل ہوئی اور پھر دوڑی چلی آئی۔۔’’ڈیڈی میں کمپیوٹر کلاس جارہی ہوں‘‘۔۔
گویا موہنؔ اسی موقع کی تاک میں تھا۔ چلو! تمہیں اپنی پلسر میں ڈراپ دے دیتا ہوں‘‘۔۔                                                                                   
۔۔’’اچھا بیٹے چلو۔۔گوڈ بائے‘‘۔۔امیر صاحب ؔکے ان ماڈرن ترقی پسند خیالات ہی کے سبب شہر میں کچھ لوگ ان کے متعلق قسم قسم کی باتیں کیا کرتے اور ان سے کچھ کھنچے کھنچے رہتے اور یہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کے وہ لوگ ان کی کاروباری ترقی سے جلتے ہیں۔                     
جب شبانہؔ سات سال کی تھی اس کی ماں کا انتقال ہوگیا ، انہوں ہی نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا،چونکہ انہیں اپنی اس اکلوتی اولاد سے والہانہ محبت تھی،اسے انہوں نے بڑے نازوں سے پالا، ایک آزاد ماحول میں اس کی پرورش کی، گرچہ اسے دینی تعلیم دلانہ سکے، پر گریجویشن تک باقائدہ تعلیم دلوائی، اس کا ہر ارمان پورا کیا۔جب اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو انہیں اس کی شادی ار رخصتی کی فکر دامنگیر ہوئی۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی قابل گھرداماد مل جائے اور یہ فرض بھی پورا ہو جائے،اپنے گھر کی لچھمی اپنے ہی گھر میں رہ سکے۔ لہذا انہیں ایک گھر داماد کا انتطار تھا، کئی رشتے آئے مگر اب تک ان میںانہیںکوئی لڑکا پسند نہ آیا،اگر کوئی پسند بھی آیا تو اسے گھر داماد  بنّامنظور نہ ہوا۔                             
                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن سہ پہر موہنؔ خود اپنی ماروتی کار لئے امیر صاحب ؔ کو لینے چلاآیا۔ امیر صاحبؔ اورشبانہؔ ’گرہ پرویش‘ کے لئے موہنؔ کے ساتھ چل دئے۔ موہنؔکا یہ نیا بنگلہ شہر کے مضافات میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں واقعہ تھا۔ جہاں وہ اکیلا اپنی دو چھوٹی 
بہنوں اور دوگھریلو ملازمین کے ساتھ رہتا تھا۔یہاں ماحول بہت خوشنما تھا۔ آج تو بنگلہ کا سارا احاطہ رنگ برنگی قمقموں سے چمک رہاتھا۔مغرب کی مسحور کن ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، بنگلہ کے آس پاس ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ شہر کے بہت سارے مالدار لوگ اس تقریب میں شریک تھے۔امیر صاحبؔ اس دوران اپنے کاروباری برادری کے درمیان گپ شپ میں مشغول رہے۔موہنؔ شبانہؔ کو اپنے بنگلہ کے انٹرنل ڈیکوریشن دکھانے کے لئے اپنے ساتھ لے گیا۔اپنے بنگلہ کے ہر ایک گوشہ سے اسے واقف کرایا،خود اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا پروسا، کچھ ہی دیر میں وہ دونوں کافی گھُل مِل گئے  ۔                                                 
                                   ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موہنؔ اکثر کہا کرتا۔۔’’برڈس آف سیم فیدر فلاک ٹو گیدر‘‘۔۔اس طرح ہر وقت وہ اپنی ذہین باتوں سے شبانہؔ کو لبھانے کی کوشش کرتا، اس کی باتیں شبانہؔ پر ایک طلسمی اثر کرنے لگیں۔ اکثر تنہائی میں موہن کی موہنی صورت، طلسماتی لچھے دارباتیں اسے گدگدیاں کرنے لگتیں۔۔اس طرح موہنؔ میں اس کی دلچسپی دن بدن بڑھنے لگی۔وہ موہنؔ کی بہنوں سے ملنے کے بہانے اس کے بنگلہ پر آنے جانے لگی۔ اس کی بہنوں سے بھی اس کی گہری دوستی ہوگئی۔اسی حیلے دونوں کاروباری گھرانوں میں رابطے بڑھنے لگے۔ وہ سب ملکر اکثراتوار کو شاپنگ کیا کرتے۔ ہل اسٹیشن پکنک کے لئے مل کر آیا جایا کرتے۔ اس طرح ایک دوسرے کے اشتراک اور تعاون سے ایک طرف ان کے کاروبار میں فروغ ہونے لگاتو دوسری جانب کچھ فرقہ پرست لوگوں کی نظروں میں یہ دوستی شدت سے کھٹکنے لگی۔ ظاہرہے کہ جب اس دنیا میں کسی کے دوستوں میں اضافہ ہو نے لگتا ہے تو ان کے دشمن بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔                                                            
الیکشن کا زمانہ جو آیا شہر میں چہاروں جانب الیکشن کی مخصوص کاروائیاں 
مثلاًکیانواسنگ،پروپگنڈے،پبلی سٹی،اسکینڈلس اورافواہوں کا بازار گرم ہونے لگا۔سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی خاطر مختلف حربے آزمانے لگے۔ذات پات ،زبان 
وبیان،رنگ ونسل کی بنیاد پر لوگوں کی گروپ بندی شروع ہونے لگی۔                             
الیکشن کا موقع تو خصوصاً شرپسندوں کی کاروائیوں کے لئے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔وہ اسی سیزن میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔سیاسی پارٹیوں سے شر پھیلانے کے ٹنڈر قبول کرتے ہیں۔انہیں اپنی مہارت دکھانے کے لئے یہ ایک نا یا ب موقع ہوتا ہے۔جب ملک کی بدنصیب عوام کی قسمت کا فیصلہ اسی موقع پر طے ہوتا ہے۔                                                              
الغرض شہر ایک طوفان کی زد میں آیا ہوا تھا ۔شر پسند چاروں اور دہشت گردی کو ہوا دے رہے تھے۔ جہاں اقلیتوں کی املاک ،بہو بیٹیاں ان کی نظر کا کانٹا بنی ہوئی تھیںوہیںامیر صاحبؔ اور موہنؔ کی کاروباری ترقی، موہنؔ اور شبانہؔ کی خوش گپیوں میں مشغول جوڑی ان کی نیندیں حرام کئے ہوئے تھی۔                                                                         
ایک دن شام کا وقت تھا کچھ فرقہ پرستوں نے موہنؔ اور شبانہؔ کو ایک کنزیومر فیر میں کچھ خریداری کر تے دکھ لیا۔انہوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا ۔پھر کیا تھا؟ افواہوں کا بازار گرم ہوا اور کچھ جنونی دہشت گردوں نے سارے شہر کو آگ لگا دی۔غریب اقلیتوں کے دوکان اور مکانات کو چن چن کر راتوں رات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔امیر صاحبؔ کی ساری املاک تباہ ہوگئی۔یہ تو محض ایک اتفاق تھا یا قدرت کی ایک مصلحت کہ امیر صاحبؔ کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ ان کے ایک دوست نے ان کے شہر کی یہ خبر سنکر انہیں اپنے یہاں روک لیا ورنہ۔۔۔ مگر شبانہؔ یعنی ان کے گھر کی لچھمی کا کہیں دور دور تک بھی پتہ نہ تھا۔                                                                 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages