Breaking

Post Top Ad

Sunday, November 18, 2018

فیض احمد فیضؔ کی شاعرانہ انفرادیت

انجینئرمحمد عادل فرازؔ

ہلال ہائوس ۔مکان نمبر 4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ۔یو پی انڈیا
mob:9358856606


فیض احمد فیضؔ کی شاعرانہ انفرادیت

 فیض احمد فیضؔ کا شماراردو شاعری کے حوالے سے بیسویں صدی کے عظیم ترین شاعروںمیں کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شاعرکی شاعری کی معراج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا کلام کتنا ادبی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے اور کتنا مقبول ہے۔فیضؔ بیسویں صدی کے وہ شاعر ہیں جو نہ صرف ہندوستان ا ور پاکستان میں مقبول ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں اردو ادب کے شیدائی ملتے ہیں ان کا کلام مقبولِ خاص و عام ہے۔اس مختصر سے مضمون میں فیضؔ کے کلام کے مختلف رنگوں کو آشکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کوئی بھی تخلیق یا شاعری اس وقت تک مقبول نہیں ہوتی جب تک اس میںتہہ داری،مختلف مضامین اورمختلف رنگ و آہنگ کی فراوانی نہ ہو۔اس میں تخلیقات کی داخلی کیفیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی خارجی روداد کی بھی جھلک ہونی چاہئے ۔اس سلسلے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری ایسی ہونی چاہئے جس میں سماج کو آئینہ دکھایا جائے اوروہ گرد و پیش کی سچی تصویر پیش کرتی ہو۔فیضؔ نے اس بات کا  کاخیال رکھتے ہوئے شاعری کی دیوی کو مسخر کیا اور اور اپنی تخلیقات کو حقیقی جذبات و خیالات کے ساتھ سماج و کائنات کا آئینہ بنا کر قارئینِ ادب کے حوالے کیا۔۔ان کی شاعری کا یہی رنگ انھیں دیگر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
     فیضؔ ایک ایسے شاعر ہیں جو معاشرے سے ہم دردی کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ان کی شاعری میں معاشرے کے لئے فکر اور اس میں ہونے والے ناخوشگوار حالات پر اظہارِ خیال ملتا ہے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعے دنیا میں ہونے والے ظلم و جور کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے سماج کے خوابیدہ اذہان کو جگانے کی کوشش کی ہے ۔جب وہ معاشرے کی بگڑی ہوئی صورتِ حال دیکھتے ہیں تو ان کا حساس ذہن مضطرب ہوجاتا ہے اور دل رونے لگتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی شاعری کرب ا ور بے چینی کا مرقع بنتی چلی جاتی ہے۔وہ جس دور میں شاعری کر رہے تھے وہ بڑا ہی پُر آشوب اور سماجی و سیاسی طور سے درہم  برہم دور تھا۔قدم قدم پر نئے نئے واقعات اور حادثات ان کے سامنے رونما ہو رہے تھے۔ان کی زندگی نے انھیں برطانوی حکومت کے ظلم و جور بھی دکھائے تھے اور انھوں نے تقسیمِ ہند کے کرب کو بھی محسوس کیا تھا۔لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی دنیا 
کے حالات بھی ان کی فکر کے سمندر میں تموج کی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اس لئے ان کی شاعری میںدنیا کی زبوں حالی کی بھی ترجمانی صاف نظر آتی ہے اس کے ساتھ ان کا ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ ہونا ان کی شاعری کو مقصدیت کی راہ پر گامزن کئے ہوئے تھا۔
  انھوں نے نہ صرف ترقی پسند تحریک کے منشور کے تحت اپنی شاعری کو پروان چڑھایا بلکہ حسن و عشق کے رنگ سے بھی اس کو رنگینی بخشی۔احتشام حسین ان کی شاعری کے حوالے سے کہتے ہیں:
ـ’’فیض کاذاتی تجربہ محبت کا آفاقی تجربہ ہے۔اور نجی ہونے کے باوجود وسیع معنی اشعار میں بیان ہوئے ہیں۔اس لیے اظہارکی انفرادیت میں بھی جامعیت اور آفاقیت ہے۔‘‘(فن اور شخصیت :ص۔311)
ٖٖفیضؔ کی نظمیں اسی رنگ کی عکاس نظر آتی ہیں۔ مثلاً:


رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
     ان کے کلام میں حب الوطنی کا جذبہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعہ سماجی اور اخلاقی قدروں کو پیش کرتے ہیں ساتھ ہی ذوق ِجمالیات کے دامن کو بھی تھامے رہتے ہیں مثلاًیہ اشعار دیکھیں:
شمع نظر خیال کے انجم جگر کے داغ۔جتنے چراغ ہیں تِری محفل سے آئے ہیں
غمِ جہاں ہو رُخِ یار ہو کہ دستِ عدو۔سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
   فیضؔ کی شاعری قدیم شعری روایتوں سے انحراف کرتی ہوئی نظر آتی ہے وہ حسن و عشق کی وادیوں سے نکل کر زندگی کے منفرد پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
      یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں حسن و عشق کی ایک نئی تصویر پیش کرتے ہیں۔وہ انسان دوستی اور اس کی بدحالی کو بھی اجاگر کرتے ہیں :
یہ حسیںکھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا۔کس لئے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اُداس ہیں۔تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم۔ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم۔خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
  وہ اپنے کلام میں انتظار اور تنہائی کو بھی بڑے پر اثر اور مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی ایک نظم ’’خدا وہ وقت نہ لائے‘‘ میں اپنے محبوب کو خوف بھی دلاتے ہوئے نظر آتے ہیں:
ٍ طویل راتوں میںتو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار کو ترسے
 ایک دوسری نظم میں اس طرح مخاطب ہوتے ہیں:
میں دل فگار نہیں تو ستم شعار نہیں
بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
  ترا ہی عکس ہے ان اجنبی بہاروں میں
جو تیرے لب ،تیرے بازو ،ترا کنار نہیں
     ایک اور نظم میں کچھ اس طرح اس مضمون کو قلم بند کرتے ہیں:
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیںپیاری۔ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری۔اُداس آنکھیں ابھی انتظار کرتی ہیں
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے۔تلاش میں ہے سحر باربا گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میںجس کاذکر نہ تھا۔وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
 وہ اپنی نظموں میں اپنے محبوب کے لئے بڑے فکر مند نظر آتے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کا محبوب کسی بھی طرح کسی پریشانی میں مبتلا ہو یاسوگواری کی منزلوں کو طے کریـ:
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو۔سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہوجائے
تری مسرتِ پیہم تمام ہوجائے۔تری حیات تجھے تلخ جام ہوجائے
غموں سے آئینۂ دل گذاز ہو تیرا
 انھوں نے شاعری کے ذریعے تحریکِ آزادی کی بھی ترجمانی کی یہاں تک کے ان کے انقلابی خیالات کی وجہ سے انھیں قید و بند کی مصیبت سے بھی دوچار ہونا پڑا وہ اپنے ا شعار میں اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
 متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے۔ کہ خونِ دل میںڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے۔ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباںمیں نے
وہ ایک سچے وطن پرست تھے اور آزاد بھارت میں ایک ایسے سماج کی تشکیل کا خواب دیکھتے تھے جہاں کسی کا استحصال نہ ہو اور عوام سکون و راحت کی زندگی گزر کر سکیں،لیکن آزادی کے بعد ان کاخواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا توان کا دل بیقرار ہو اُٹھااور انھیں’’صبحِ آزادی‘‘جیسی نظم کہنی پڑی:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر۔وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر۔چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل۔کہیں توہوگا شبِ سست موج کا ساحل
   انھوں نے اپنی نظموں میں درد و غم کی عکاسی کرتے ہوئے تمنائوں اور آرزوئوں کے سوجانے کی شکایت بھی کی ہے:
خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے۔ٖفضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہہ و انجم۔جنونِ عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیںکہاں سوگئی ہیں میرے ندیم؟
     ان کے یہاں روایتی علامتیںپائی جاتی ہیں لیکن ان کا مفہوم نئے رنگوں سے آشناکراتاہے۔مثلاً:’’گل،گلشن،قفس،چمن،پھول،خار،گلچیں،بلبل،مئے،میخانہ،ساقی،
ناصح،محتسب اور واعظ ‘‘ جیسی روایتوں کووہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق پیش کرتے ہیں جس سے ان کے اشعار میں معنی کے مختلف زاویے ابھر کر سامنے آتے ہیں اور ایک سحر انگیزی کی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔
غرض یہ کہ ان کی شاعری کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں فلسفہ ،منطق ،زندگی کی حقیقتوں کی ترجمانی ،معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال ،غمِ جاناں اورغمِ دوراں کی بھی عکاسی ہے۔وہ قدیم شعری روایتوں کو بدل کر انھیںغنائیت کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ۔ وہ ایسے شاعر ہیں جنھوںنے صرف شاعری ہی نہیںکی بلکہ قلم کی لمحہ بہ لمحہ پرورش کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات اور روداد کوشاعری میں پیش کیا ۔ ان کا یہ شعر اسی بات کا ترجمان ہے:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages