میں تیرے پیار کا اقرار کروں یا نہ کروں
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
سب یہاں درد کی تصویر بنے بیٹھے ہیں
اپنے غم کا ابھی اظہار کروں یا نہ کروں
پیار کو جرم سمجھتی ہے یہ دنیا‘ لیکن
میں بھی اس جرم کو اک بار کروں یا نہ کروں
دل کے زخموں کو کبھی دیتا نہیں جو مرہم
ایسے بے درد کا دیدار کروں یا نہ کروں
ایسی خوش فہمی کی عادت نہیں اچھی عاصمؔ
تجھ کو اس خواب سے بیدار کروں یا نہ کروں
No comments:
Post a Comment