اس کی خواہش ہے اسے پیار کروں یا نہ کروں
سوچتا ہوں کہ میں انکار کروں یا نہ کروں
وقت پڑنے پہ جو دے سکتا ہے دھوکہ مجھ کو
اس کو اپنا میں طرف دار کروں یا نہ کروں
زندگی کے لیے لازم ہے مشقت بھائی
خود کو اس کے لیے تیار کروں یا نہ کروں
گھر تلک آگیا سیلاب کا پانی دیکھو
سونے والوں کو میں بیدار کروں یا نہ کروں
اس کی رحمت کا طلب گار ہوں عادلؔ میں بھی
قصرِ امید کو مسمار کروں یا نہ کروں
حافظ فیصل عادل(چنئی)
No comments:
Post a Comment