Breaking

Post Top Ad

Thursday, October 31, 2019

رفتارِ جہاں

عبدالمتین جامیؔ

موبائل۔9938905926

                             رفتارِ جہاں                   

جوش ملیح آبادی کا یک شعر ملاحظہ فرمائیے:
اپنے بھاگ کا یہی ہے لیکھ٭وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
میں نے’’ ادبی محاذ‘‘ اپریل تا جون ۲۰۱۹ء کے شمارے میں خطوط نگاری کے سلسلے میںکچھ باتیں کی تھیں،امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو ناچیز کی باتوں کی اہمیت معلوم ہو گئی ہوگی۔ در اصل میرا مدعا یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں اگر کوئی انقلاب ہم تک آسکا ہے تو وہ پرانی قدروں کی پامالی ہے۔گزشتہ صدی کے مقابلے میں یقینا سائنسی اعتبار سے انسان بہت آگے نکل چکا ہے۔اپنی صدی میں ہمیں ہر اعتبار سے بہت ساری چیزوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔آگے چل کر اور کن چیزوں سے محروم ہونا پڑے گا یہ خدا ہی جانے۔ممکن ہے کہ فوری طور پر ہم جن باتوں سے مستفیض ہو رہے ہیں آگے چل کر وہ بھی نہ رہیں۔ مثلاً عہد طفلی میں ہمارے اندر اپنے بڑوں کی تعظیم اور ان کا خوف بھی رہتا تھا۔اگر ہمارے بزرگ کسی راہ پر کھڑے ہوئے مل جاتے تو ہم اپنی راہ بدل دیتے تھے۔لیکن آج کا نوجوان اپنے بزرگوں کے سامنے بد تمیزی کرنے سے باز نہیں آتا۔ہمارے زمانے میں معاشرے کے اندر شرم وحیا کا وجود باقی تھا لیکن آج اسے فرسودہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ماضی میں لڑکیاں گھروں تک محدود رہتی تھیں۔ اب آزاد پنچھیوں کی طرح سرِ بازار گھومتی ہیں۔ اخبار بینی ہمارے عہد جوانی میں ایک نشہ تھا،ریڈیو سے خبر سننا بھی ہماری سرشت میں داخل تھا‘ کلاسیکل گیتوں کو سن کر جھوم جاتے  تھے‘مسجدوں میں حاضری کو بھی ہم نے زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ لیکن ٹی وی کی ایجاد کے بعد گھروں میں رقص و سرود کا ماحول بن گیا ۔ٹی وی سیریل نے ہمیں کتب بینی کے شوق سے بھی محروم کردیا ۔ٹی وی کے ذریعہ بے حیائی بھی عام ہونے لگی ہے۔ اب تو انٹرنیٹ،فیس بُک،ویڈیو چیٹنگ وغیرہ کی سہولتیں حاصل ہو چکی ہیں۔گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی گوشے کی خبریں پل پل میں مل جاتی ہیں۔گھر بیٹھے بڑی بڑی کمپنیوں کے قیمتی سامان مل جاتے ہیں۔دفتروں میں کاغذ وقلم سے رشتہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔،بینک میں پیسے جمع کرنے کے لئے قطارلگانے کی ضرورت نہیں۔اسی طرح ریل اور،پلین وغیرہ کے ٹکٹ بھی آن لائن بک کیے جاسکتے ہیں۔ فون پر انٹرنیٹ سے حاصل شدہ سہولیات نے ہمارے کام کو سو گنا آسان کر دیا ہے۔حتیٰ کہ بچوں کی شادی وغیرہ کے سلسلے میں بھی کسی حد تک آسانی فراہم ہو چکی ہے۔اخبارات میں ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات آجاتے ہیں ۔بعض مواقع پر فون کے ذریعہ ہی دعوت دے دی جاتی ہے۔ غرض کہ آج کی دنیا بہت کچھ بدل چکی ہے ۔
ہماری پیڑھی کے لوگوں میں کتب بینی کی عادت عہدِ طفولیت سے رہی ہے۔کتابوں کے مطالعہ میں ہمارا زیادہ تروقت گزرتا رہا ہے ۔ قوتِ خرید نہ ہونے پر لائبریریوںسے یا اپنے دوستوں سے کتابیں حاصل کرکے پڑھ لیتے تھے۔ناول پڑھنے کو بھی ہمارے بزرگ برا سمجھتے تھے۔رسالے تو تقریباً ہر گھر میں آتے رہتے تھے۔ شمع،بیسویں صدی،خاتون مشرق، ھدیٰ ،ہما کے علاوہ مذہبی اور نیم مذہبی رسالے گھر کی زینت بنتے تھے۔لیکن…اب کیا ہو رہا ہے؟ پڑھے لکھے اونچے طبقے کے مالدار  لوگ‘تاجر یا افسر یا دیگر تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں انگریزی اخباریارسالے تو آتے رہتے ہیں لیکن اردو رسالوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بنگال اور کیرالہ کے علاوہ مزید کئی ریاستوں کے لوگ اپنی مادری زبان کے رسائل خرید کر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عموماً ہر گھر میں ان کی مادری زبان کے رسائل دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اردو والے ایسے جذبوں سے عاری ہیں۔جن کے گھروں میں اردو مادری زبان ہے حتیٰ کہ اردو کی روزی روٹی کھانے والے حضرات بھی اردو رسائل کی خریداری یا مطالعہ کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔اس کے برعکس انگریزی اخبارات ورسائل کے مطالعہ کو اسٹیٹس سمجھتے ہیں۔ آج کل کے مشاعرے بھی کمرشیل نوعیت اختیار کرچکے ہیں جن میں متشاعر دوسروں سے کلام خرید کر مشاعرہ پڑھتے ہیں اور لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔ان مشاعروں کے لئے اچھا گویّا ہونا لازمی ہے ۔اس کی فیس بھی زیادہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہر حال  ناچیز نے مندرجہ بالا جن باتوں یا خیالوں کا اظہار کیا ہے ممکن ہے کچھ لوگ متفق نہ ہوں۔ہم اڈیشا جیسے غیر اردو علاقے میں رہ کر اردو کے لئے جو بھی کر رہے ہیں کم از کم اردو دنیا میں اس کی پذیرائی ہونی چاہئے۔بیرونِ اڈیشا کے عاشقانِ اردو کے مالی تعاون سے ہی ’’ادبی محاذ‘‘زندہ ہے۔ اب تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا مگر تشویش کی بات یہ ہے کچھ عرصہ سے ہمارے خریداروں میں سردمہری پائی جانے لگی ہے۔نصف سے زیادہ حضرات تجدیدِ خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں جس کے سبب مالی بحران کا سامنا ہے۔امید کرتا ہوں کہ اس صورت حال کی جانکاری کے بعد ہمارے کرم فرما ضرور توجہ فرمائیں گے۔ اگر پہلے کی طرح آپ سبھوں کا تعاون حاصل رہا تو ان شاء اللہ ’’ادبی محاذ‘ پابندی کے ساتھ یوں ہی جاری وساری رہے گا۔
خوشی کی بات ہے کہ رواں سال سے نئے نئے لوگ ادبی محاذ میں دلچسپی لینے لگے اور اپنا زرِ تعاون ارسال کرکے رسالے کو تقویت بخش رہے ہیں۔ادارہ اپنے ان نئے کرم فرماؤں کا شکر گزار ہے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages