ہم یوں ملے کہ جیسے کوئی واسطہ نہ تھا
اس کے سوا تو اور کوئی راستہ نہ تھا
کیا بے پناہ وار تھا نیزے کا وقت کے
دیکھا جو آس پاس تو کوئی بچا نہ تھا
ہر سمت تھا صلیب پر میں ہی ٹنگا ہوا
اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سوا نہ تھا
اٹھا فنا کے ہاتھ جو پردہ وجود کا
ہم اپنے منتظر تھے کوئی دوسرا نہ تھا
چہروں پہ تھا جما ہوا سیدؔ غبارِ کرب
شہرِ وفا میں کوئی کسی سے جدا نہ تھا
No comments:
Post a Comment