Breaking

Post Top Ad

Tuesday, May 19, 2020

رباعیات قمر:ؔایک تعارفی خاکہ Rubaiyaat Qamar Ek Tarufi Khaka

علامہ ناوک حمزہ پوری 

         رباعیات قمر:ؔایک تعارفی خاکہ

معمر‘معزز‘اور معتبراستاد سخنور کی حیثیت سے قمر سیوانی کو مدت سے جانتا  وں۔ہمارے بہار میں فی زمانناً فطری صلابت اور فنی حرمت کے جاں باز مجاہد کی حیثیت سے باقیات الصالحات کے زمر ے میں جو دو چار شعرارہ گئے ہیں ان میں حضرت قمرؔ کا مقام چرخِ چہار پر ہے۔ افسوس ہے قسمت اس فقیر کو گوشہ نشینی کی ہنوز اس قدر یاور نہ ہوئی کہ اس بزرگ شاعر کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بوسی کرتا۔
حضرت قمرؔایک مدت سے بلکہ مدتِ مدید سے گیسوئے سخن سجانے سنوارنے ہمہ تن مشغول ہیں۔ مزاج و انداز ہر دو خسروانہ پایا ہے اس لئے دولتِ سخن جو ہاتھ آئی اسے حاجت مندوں میں اس طرح تقسیم فرماتے رہے کہ اپنے پاس بس اللہ کا نام رہ گیا۔
ایسے شعرا کی تعداد کافی ہے جنھوں نے حضرت قمر ؔ کے انوارِ فکر اور دستِ سخاوت سے استفادہ کیاہے۔ دولتِ افکار اور متاعِ سخن بے دریغ لُٹانے کا یہ انداز ِ خسروانہ بے مثال ہے۔ حضرتِ قمرحضرتِ کوثر سیوانی سے مستفیض ہو ئے اور حضرت کوثر حضرت ابرار حسنی گنوّری کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ حضرت داغؔ سے ملتا ہے۔ جنھیں بجا طور پر ناز تھا کہ   ؎اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سلسلۂ داغؔ کے ایک معروف استاد شاعر حضرت سیماب اکبر آبادی مرحوم کی بھی شخصیت بہت معروف ہے ۔بعض تذکرہ نگاروں نے ان کے تلامذہ کی تعداد تین چار ہزار بتائی ہے۔ ممکن ہو اس میں مبالغہ ہو لیکن مبالغہ بھی کہاں تک ہو گا۔چار ہزار نہ سہی تین ہزار سہی لیکن یہ نصیبہ بھی کتنوں کو حاصل ہوا ہے؟ البتہ حضرت کے وابستگان میں ہر شخص فطری شاعر نہ تھا بس جس کے ہاتھ جو کچھ لگ سکا حضرت کے خزانے سے اٹھا لے گیا اور زمانے میں شاعر مشہور ہو گیا۔داغ اسکول میں یہ اندازِ خسروانہ حضرتِ سیماب کے بعد حضرت قمرؔ سیوانی کا حصہ قرار پایا۔ چنانچہ جو حقیقی و فطری شاعر تھے انھوں نے توحضرت قمرؔ کی روشنی طبع سے اکتسابِ نور کیا ہی بے شمار ایسے حضرات بھی جو شاعر نہ تھے نہ ہو سکتے تھے،مال و متاع ِ قمرؔ کی بدولت شاعر مشہور ہو گئے ۔حضرت قمرؔ تا عمر مشکِ سخن کے اس ذخیرے کو حضرتِ عمر ؓ کی طرح ناک پر رومال باندھ کر اس طرح تقسیم کرتے رہے کہ خود ان کی ذات اس کی خوشبو سے بھی مستفید نہ ہو۔ اللہ اللہ !ایسی سخاوت سب کا حصہ کب ہوتی ہے ۔

یہی صورتِ حال جاری و ساری رہی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود حضرتِ قمرؔ 
اب تک ’’صاحبِ کتاب‘‘نہ ہو سکے۔ مجھے یاد آتا ہے وہ واقعہ کہ جب حضرت اقبال ؔ کو حکومتِ وقت نے ’سر‘کا خطاب عطا کرنا چاہا تو اقبالؔ نے فرمایا کہ جب تک میرے استاد کو شمس العلماء کا خطاب نہیں دیا جاتا میں ’سر‘  کا خطاب قبول نہیں کروں گا ۔حکومت نے پوچھا کہ آپ کے استاد کی تو ایک کتاب بھی نہیں چھپی ہے۔کچھ ہو تو بتائیے۔اقبالؔ نے جواب دیا کاغذی تصنیف کیا تلاش کرتے ہو، استاد کی زندہ تصنیف تو خود میں ہوں۔حضرت قمرؔ کی ذات والا صفات لائق مبارک باد ہے کہ  بلاسے ان کی کوئی تصنیف تا حال شائع نہیں ہوئی مگر ایک زندہ تصنیف حضرت ظفر کمالی کی انھیں حاصل ہے اور مجھے یہ سن کر دلی مسرت ہوئی ہے کہ حضرت پروفیسر ڈاکٹر ظفر کمالیؔ حضرت کے بکھرے ہوئے سرمایۂ کلام کو یکجا کر رہے ہیں۔آپ بزرگ شاعر ہیں اور ما شاء اللہ زود گو اور پر گو شاعر ہیں۔ تمام مروّجہ و معتبر صنفِ سخن میں آپ نے اپنی جولانیٔ طبع کا مظاہرہ کیا ہے ،یہاں تک کہ ظریفانہ شاعری کی مملکت میں بھی آپ کا سکّہ ،سکّہ رائج الوقت ہے۔ ایسے ہمہ جہت استاد شاعر اب ہیں کہاں؟ بیمار ہیں اور خطرناک بیماری ہے ۔ویسے تو دل کی بیماری تو ہر شاعر کو ہوتی ہے اور جسے نہ ہو وہ میرے خیال میںشاعر نہیں۔ جس نے نہ پڑھا ہو وہ حضرت اقبالؔ اور ہمارے جبہ و دستار والے حضرت علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ علیہ کے خطوط بنام عطیہ فیضی پڑھ ڈالے۔ بہر حال میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اللہ قادرِ مطلق ہے اور شافی و کافی بھی اسی کی ذات ہے۔امید ہے کہ اتنی مہلت تو وہ ضرور عطا کرے گا کہ حضرت قمرؔ کی مطبوعہ تصنیفات کا بھی مطالعہ کرسکوں۔
فی الحال اس خادمِ شعروادب کے لئے یہی کیا کم ہے کہ حضرت قمرؔ سیوانی کے سے استاد شاعر نے اس ہیچ مداں کو یہ عزت بخشی کہ اپنی رباعیات کے مجموعے پردیباچہ لکھنے کی فرمائش کی۔یہ فقیر اسی کو اپنے لئے ایک اعزاز تصور کرتا ہے ۔ حضرت قمرؔسیوانی ہمارے بزرگ ہیں۔ہر چند کہ بلحاظ سن و سال یہ فقیران سے کچھ بڑا ہے ،لیکن حضرت سعدی علیہ الرحمہ پہلے ہی گوشمالی کر گئے ہیں کہ بزرگی بہ عقل است نہ بسال اور ظاہر ہے کہ جہاں تک علم و عقل و فضل کا تعلق ہے حضرت قمرؔ اس 
فقیر کے بلاشبہ بزرگ ہیں۔میں آپ کے کلام پر خامہ فرسائی کی جرأ ت نہیں کرتا لیکن چونکہ عمر کے بائی پاس کی سہولت تھی اس لیے راضی ہو گیا۔
یہ مجموعہ رباعیات کا ہے اور رباعی میرے خیال میں ،جس کا اظہار میں بار بار اپنی تصنیفات میں کرتا رہا ہوں کہ مختصر اصنافِ سخن میں اس سے زیادہ طیب و طاہر اور دلکش و د ل نشیں کوئی دوسری صنفِ سخن نہیں۔یہ بات دیگر ہے کہ طہارتِ مضامین اور قدرِ فنی مشکلات کے کے سبب بیشتر شعرا اس سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ایک زمانے میں یہ بات مشہور تھی یا مشہور کر دی گئی تھی کہ رباعی گوئی اساتذہ شعرا کا کام ہے۔ حد یہ ہو گئی کہ جوش جیسے قادر الکلام شاعر نے نے بھی اس کی مشکلات کا رونا رو یا ۔جب یہ حال عالموں و فاضل شعرا کا رہا ہو تو پھر ترقی پسند تحریک اور پھر الم غلّم نہ جانے کون کون سی تحریکات کی کوکھ سے جب نیم خواندہ بلکہ نا خواندہ شعرا منظرپر آئے تورباعی سے اس طرح بدکنے لگے جیسے سانڈ لال کپڑے کو دیکھ کر رسی تڑا کر بھاگ جاتا ہے۔
البتہ جب جدیدیت کا بھی کچھ غبار بیٹھنے لگا تو باقیات الصلاحات قسم کے کچھ صاحبِ نظرسخن اور پھر اس دُرِّ بے بہا صنفِ سخن کی طرف پلٹے اور پلٹتے ہی اس کی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار کی اور آج رباعی اپنی پیشانی کے تمام داغ دھو چکی ہے اورخام خیالوں کے تمام اعتراضات کا دندانِ شکن جواب دے چکی ہے۔ایک حیران کن حقیقت اس خاکسار کے مطالعے و مشاہدے میں یہ بھی آئی ہے کہ داغ اسکول کے بھی بیشتر شعرا نے رباعی کی جانب سے کنی کاٹ کر گزر جانے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ نوّے کے دہائی میں مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی تھی کہ جب جب حضرت فرحت قادری گیاوی ،حضرت کرامت علی کرامتؔ ،حضرت علامہ شارق جمال ناگپوری وغیر ہم نے فرمایا تھا کہ انھوں نے رباعی کو تو ہاتھ تک نہیں لگایا ہے۔بہر حال مسرت ہوئی تھی کہ یہ حضرت بھی رباعی کی طرف نہ صرف پلٹے تھے بلکہ بعض نے تو نام پیدا کیا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نفسیاتی فیکٹر بھی حضرت قمرؔ کی راہ میں کھڑا ہو گیا ہو کہ آپ نے رباعی کی طرف نگہِ التفات ذرا تاخیر سے کیلیکن اس کا ازالہ بھی یوںکر دیا کہ محاورے کی زبان میں راتوں رات کئی سو رباعیاں اور ایک آب دار رباعیاں کہہ کر رکھ دیں ۔اسی کو کہتے ہیں قادر الکلامی ،سبحان اللہ۔
باقی رہا فکری و فنی پہلو ،اس لحاظ سے میری بساط کیا ؟مثل مشہور کے کیا پدّی کیا پدّی کا شوربا۔میرا منصب نہیں کہ میںحضرت کے کلام پر انگلی رکھنے کی جسارت کروں البتہ حضرت کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں اس لیے ایک نگاہ یہاں وہاں ڈال لی ہے۔
بحیثیت صنف سخن رباعی کی اپنی خصوصیات بھی اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ بہ کمال سادگی حضرت قمرؔ نے رباعی کے تمام محاسن اپنے کلام میں سمو دیے ہیں اور فکری پہلو سے کج فہمیوں کے ان تمام اعتراضات کے بھی جواب دے دیے ہیں جو رباعی پر وقتاً فوقتاً عاید کیے جاتے رہے ہیں ۔اسی نام جہاد بالقلم ہے۔
حضرت قمرؔ کی رباعیوں میں وہ تمام خوبیاں بہ مقدار وافر موجود ہیں جو اہلِ نقد و نظر نے رباعی کے لیے ضروری قرار دیے ہیں۔ مثلاً زبان درست ہو اورآسان بھی ہو اور صاحبِ نظر جانتے ہیں کہ حضرت جوش ملیح آبادی کو رباعی کے باب میں ان کے نامانوس اور مشکل الفاظ و تراکیب ہی لے ڈوبے۔ اس زاویے سے حضرت قمرؔ سیوانی کی زبان ایسی سادہ اور آسان ہے کہ گویا کوژر کے آبِ طیب سے دھل کر آئی ہو۔
فنی مشکلات کا رونا جاہل شعرا روتے ہیں اور ماشا ء اللہ قمرؔ صاحب ماہرِ فن استاد شاعر ہیں۔یوں انھوں نے کثیر الاستعمال اوزان کے ساتھ ساتھ مشکل ترین اوزان بھی بڑی صحت و صفائی سے برتے ہیں ۔رباعی پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کے موضوعات بندھے ٹکے ہوتے ہیں ۔اس نظر سے بھی دیکھا جائے تو قمرؔ صاحب کے موضوعات کی دنیا بھی خاصی وسیع ہے۔یہ درست ہے کہ ان کے یہاں حمد و نعت وپند و نصائح بھی ہیں لیکن قمرؔ کی رباعیوں میں پوری زندگی سانس لیتی ہے، پورا معاشرہ بولتا ہے جن میں ان کے اپنے تجربات کا عکس بھی ہے اور مشاہدات کی کارفرمائی بھی۔
یہ رباعیاں اس لحاظ سے بھی قابل قدر بھی ہیں کہ یہ قاری کو مسرور بھی کرتی ہیں اور بسا اوقات متحیر بھی کرتی ہیں۔ اندازِ بیان اس قدر عام فہم اور اسلوب ایسا پیارا ہے کہ قاری اور سامع کسی دشواری میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کی لذت محسوس کرتا ہے۔
تمام تررباعیاں روانی اور فصاحت کی دولت سے بھی مالامال ہیں اور اس قدرواں دواں ہیں کہ تاثیری قوت سے بھی بہر ور ہیں۔بعض حضرات فرماتے ہیں کہ دعووں کے لیے بھی دلیل ہونی چاہئے ۔اس باب میں عرض کرتا ہوں کہ انتخاب کی ضرورت تو تب ہی پیش آتی جب خال خال رباعیاں محاسن کی دولت سے بھرپور ہوں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ ہر ہر رباعی تمام تر خوبیوں سے بھری پڑی ہے۔ بقول کسے  ؎
ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می بینم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجااست
الغرض میں چاہتا ہوں کہ قاری خود مطالعہ فرمائیں اور ان رباعیات کی خوبیوں سے مستفید و مستفیض ہوں۔
حکایت اس قدر لطیف و لذیذ ہے کہ دراز تر گفتن کی متقاضی ہے لیکن میں اس حال میں نہیں ہوں کہ اس سے زیادہ لکھ سکوں ۔چنانچہ اس باکمال استاد فن شاعر کی خدمت اس اقراری رباعی کا تحفہ پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں   ؎
سبحان اللہ فکر کی جولانی۔ماشا ء اللہ فن کی یہ تابانی
ہے معترف اک زمانہ جن کا وہ ہیں ۔استادِ اساتذہ قمرؔ سیوانی
٭٭٭
         رباعیات قمر:ؔایک تعارفی خاکہ Rubaiyaat Qamar Ek Tarufi Khaka
         رباعیات قمر:ؔایک تعارفی خاکہ Rubaiyaat Qamar Ek Tarufi Khaka

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages