Breaking

Post Top Ad

Wednesday, June 3, 2020

قمرؔ سیوانی صاحب اور ان کی شاعری Qamar Sewani Saheb Aur Unki Shayeri

 کے۔کے نندن اشک

2630, Phase-7,Sector-61
Mohali-160062(Punjab)

 قمرؔ سیوانی صاحب اور ان کی شاعری


قمر سیوانی صاحب سے کچھ عرصہ پہلے ہی میرے عزیز غزل گوغلام سرور ہاشمی کے توسط سے تعارف ہوا۔موصوف انگریزی استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد اب سبکدوش ہوچکے ہیں۔شاعری کی ابتدا  ۱۹۵۵ء میں کی ۔صنف رباعی ہی ان کی شاعری کا محور بنی۔ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ’’رباعیاتِ قمر‘‘ کے نام سے شایع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ رباعی گوئی میں ان کی بے پناہ صلاحیت کا اعتراف ناوک حمزہ پوری‘ پروفیسر شکیل الرحمن‘ پروفیسر سید طلحہ رضوی برق‘ ڈاکٹرظفر کمالی‘شین حیات‘ ڈاکٹر ارشاد احمد‘عبدالمتین جامیؔ جیسے صاحبِ علم وفن نے بڑے واشگاف انداز میں کیا ہے۔چونکہ قلندرانہ طبیعت پائی ہے اس لیے نہ تو اپنے کلام کو حفاظت سے رکھا اور نہ ہی مجموعہ چھپوانے میں دلچسپی لی۔آخران کے شاگردوں میں سے کسی ایک نے یہ کام سرانجام دیا۔
قمر سیوانی صاحب کو اگر استاذالشعرا کہا جایے تو بے جا نہ ہوگا۔ بہر حال ان کے مجموعے کے مطالعہ کے بعد اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں۔ ان کی رباعیات ان کے عمیق مشاہدات اور تجربات کا آئینہ ہیں۔انھوں نے زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور اس کے سبھی پہلوؤں کو اپنی رباعیوں میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ رباعیات مسرت اوربصیرت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ زبان پر انھیں قدرت حاصل ہے۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا لفظ کہاں اپنی معنوی سطح پر مناسب ہوگا۔اس کے بعد اظہار کا مرحلہ آتا ہے۔اگر اظہارکو صحیح ڈھنگ سے شعری لباس عطا کیا گیا تو وہ شعر دو آتشہ بن جاتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ ابتدائی شعر دیکھیں:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرہ جو تھا مرے عرقِ انفعال کا

مصرع اولیٰ میں لفظ موتی پر غوڑ فرمایئے۔یہاں اس کا ہم معنی لفظ گوہر بھی لایا جاسکتا تھالیکن اس سے شعریت مجروح ہوجاتی ‘فصاحت کا خون ہوجاتا۔یہ شاعرانہ بصیرت تھی کہ علامہ نے لفظ موتی کا موزوں ترین استعمال کیا۔ اہلِ نقد و نظر نے شاعری کے لیے سادگی کو اولین عنصر قرار دیا ہے۔ویسے بھی شاعری میں یہ چار اوصاف کا ہونا ضروری ہے یعنی سادگی کے ساتھ پرکاری اوربیخودی کے 

ساتھ ہوشیاری۔سادہ سادہ الفاظ میں بھی بڑی گہری باتیں کہی جاسکتی ہیں۔اور یہ وصف حضرت سیوانی میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ایک رباعی دیکھیں: 
تاروں سے بھر آئے کہاں سے آنچل۔آنکھوں کے لیے مانگے یہ کس سے کاجل  
کنگن اسے جذبات کا پہنائے کون۔غالبؔ کی طرح کون سنوارے یہ غزل
مندرجہ ذیل رباعیاں بھی اسی قبیل کی ہیں یعنی سبھی رباعیاں سہل ممتنع کے ذیل میں آتی ہیں۔ایسی سلاست و روانی کڑی مشق ومزاولت سے ہی آتی ہے۔ آپ بھی لطف اندوز ہوں:
برسات میں پانی کی گرانی دیکھی۔تہوار میں پوشاک پرانی دیکھی
مرجھائے ہویے پھول مجھے یاد آیے۔جب میں نے غریبوں کی جوانی دیکھی
٭
بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے زنجیرِ پا۔زندانِ مسائل ہے سیاست کی فضا
اس دور میں ہم جیسے غریبوں کے قمرؔ۔جینے کی دعا ہوگی پھانسی کی سزا
٭
محنت سے قمرؔ نام بڑا کرتے ہیں۔غربت میں بھی اکرام بڑا کرتے ہیں
مت دیکھ حقارت سے مزدوروں کو۔چھوٹے ہیں مگر کام بڑا کرتے ہیں
٭
اب شام ہوئی نور کا ساماں کردے۔جو مشکلِ شب ہے اسے آساں کردے
ٹھوکر نہ ہوا کو ترے کوچے میں لگے۔رستے میں حویلی کے چراغاں کردے

ان رباعیات میں موضوعات کی رنگا رنگی بھی ہے اور ان میں عصری زندگی سانس لیتی نظر آتی ہے‘ان میں نفسیاتی سچائیاں بھی ہیں اور فلسفیانہ موشگافیاں بھی‘راز ونیاز کی باتیں بھی ہیں اور گلے شکوے بھی۔ساتھ ہی ان میں بلا کی شعریت بھی پائی جاتی ہے۔کہیں ایسا نہیں لگتا کہ کوئی بات انھوں نے بطور فیشن کہی ہے۔
آخرمیں اتنا کہنا چاہوں گا کہ قمر صاحب جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے اچھے انسان بھی ہیں۔بے نیازی وبردباری ان کی طبیعت کا خاصّہ ہے۔قدرت نے آپ کو ایک بڑا دل عطا کیا ہے۔مشکلات میں گھر کر بھی صبر وشکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تا دیر ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages