Breaking

Post Top Ad

Wednesday, June 3, 2020

پانی پہ بھی تصویر بنا سکتا ہوں: قمر سیوانی Pani Pe Bhi Tasveer Bana Sakta hon Qamar Sewani

ایم۔نصراللہ نصرؔ
کولکاتا

           پانی پہ بھی تصویر بنا سکتا ہوں: قمر سیوانی



پانی پہ تصویر بنانا کوہ گراں سے جوئے شیر لا نے کے مصداق عمل ہے ۔یعنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کام ہے لیکن شعرائے عظام نے ایسے کام اور تخیلات کے ایسے ایسے معرکے سر کیے ہیں جواکثر حیرت کن ثابت ہوئے ہیں ۔ ایسے ہی شعرا میں ایک نام قمر سیوانی کا بھی ہے جو رباعیات گوئی میں مہارت رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کی تائید بھی کی جاسکتی ہے اور تعریف و تحسین بھی ۔  
قمرسیوانی بہار کے بزرگ شعرا کی اگلی صف کے شاعر ہیں ۔۸۲ سال کی عمر میں بھی تر وتازہ اور صحت مند رباعیات کہتے ہیں ۔ اس صنفِ سخن سے انہیں خاص رغبت رہی ہے ۔ مختلف موضوعات پر موصوف نے سیکڑوں رباعیات کو حصار تحریر و تخلیق میں رکھ چھوڑا ہے جو کافی خوبصورت اورداد و تحسین کے لائق ہیں ۔ ان کی رباعی گوئی کے قصیدے ناوک حمزہ پوری، پروفیسر شکیل الرحمن ،ڈاکٹر ظفر کمالی ، پروفیسر سید طلحہٰ رضوی برق، شین حیات ،ڈاکٹر ارشاد احمد کے علاوہ بیشمار دیگر اربابِ علم و فن اور ماہرین شعرو سخن پڑھ چکے ہیں ۔ اپنے علاقے میں ہی نہیں بلکہ علاقے سے باہر بھی موصوف کی شاعری کے چرچے عام ہیں ۔موصوف رسائل وجرائدمیں اکثر چھپتے رہے ہیں بلکہ ان کے تعلق سے کئی رسائل میں ان پر گوشے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ان کے افکارو خیالات میں کا فی وسعت اور فراوانی ہے ۔ وہ غیر اہم بات کو نہایت ہی اہم بنا نے کے ہنر سے خوب واقف ہیں

قمر سیوانی کا اصل نام محمد بدرالدین ہے اور قلمی نام قمر سیوانی ۔ والد کا نام حافظ قمرالدین (مرحوم )ہے ۔ان کی پیدائش ۶؍ فروری ۱۹۳۸ کو پرانا قلعہ ،سیوان (بہار ) میں ہوئی ۔ تعلیم بی،اے ،بی۔ایڈ تک حاصل کی اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے ۔ اب سبکدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی پسندیدہ شاعری رباعی گوئی ہے اور ان کی پہلی تصنیف ’رباعیات قمر‘ (۲۰۱۱) میں منظر عام پر آکر پذیرائی کی اسناد حاصل کر چکی ہے ۔ ہر چند کہ یہ علاقہ ادبی لحاظ سے غیر معروف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے کچھ لوگ شعر و ادب سے منسلک ضرور رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔ان کو ٹھیک ڈھنگ سے منظر میں لانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ امید ہے قمر سیوانی کے توسط سے یہ علاقہ ادبی اعتبار سے روشن ہو جائے جیسے بہار کے دیگر علاقے اردو شعروادب کی خدمت میں صف ِاول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

   صنف ِ رباعی کے تعلق سے نقشبند قمر بھوپالی ’کتاب الشعر ‘ میں لکھتے ہیں :
’’رباعی کو ’  ترانہ ‘بھی کہا گیا ہے ۔ رباعی کے اوزان بحر ہزج سے مخصوص ہیں رباعی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔مصرع اولیٰ ،مصرع ثانی اور مصرع چہارم ہم قوافی ہوتے ہیں ۔ ‘‘

دراصل رباعی اس صٖنفِ سخن کا نام ہے جس میں چار مصرعوں کے توسط سے ایک خاص مضمون کو حصارِ تحریر میں لایا جاتا ہے ۔ یہ لفظ عربی لفظ ’ربع ‘ سے مشتق ہے جس کے معنی چار کے ہوتے ہیں ۔یعنی چار مصرعوں پر مشتمل وہ مختصر سی نظم جو ایک مخصوص خیال کی ترجمانی کرتی ہو ’رباعی ‘ کہلاتی ہے ۔جس کے چوبیس اوزان مخصوص ہیں مگر اس میں اضافے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔رباعی کے موضوعات کی کوئی قید نہیں ۔اس کا میدان بہت وسیع ہے ۔اس میں مذہب ، تصوف، عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی ، سنجیدہ افکا ر، شوخ خیالات ، واقعات ِ کربلا ، اہلِ بیت کی مدحت ، تجرباتِ حیات ، صبرو شکر، عزم و استقلال ،اخوت و وفاداری ، جاںبازی و حق پرستی، عجز و انکساری ،ظلم و ستم کی مذمت اور دکھ سکھ کے تمام مضامین حیطۂ تحریر میں لائے جاسکتے ہیں ۔
قمر سیوانی نے ان تمام خصوصیات کی پاسداری کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے اور دائرۂ سخن میں رہ کر اپنی بات کرنے کی کوشش ہے ۔ ان کی رباعیات میں وہ تمام نمونے موجود ہیں جو رباعیات کے تقاضے ہیں ۔ ان کی چند رباعیات ملاحظہ فرمائیں :  
برسات میں پانی کی گرانی دیکھی ۔تہوار میں پوشاک پرانی دیکھی 
مرجھائے ہوئے پھول مجھے یاد آئے۔جب میں نے غریبوں کی جوانی دیکھی 
٭
محنت سے قمر نام بڑا کرتے ہیں۔غربت میں بھی اکرام بڑا کرتے ہیں
مزدور کو دیکھو نہ حقارت سے یوں۔ چھوٹے ہیں مگر کام بڑا کرتے ہیں 
٭
نفرت کا دیا دل میں نہ جلنے دینا۔سینے میں عداوت کو نہ پلنے دینا 
تعمیر کے جو جذبے ہیں ان جذبوں کو۔۔تخریب کے سانچے میں نہ ڈھلنے دینا 
٭
ظلمات میں ہمت کا ستارا بن جا ۔گرداب میں دریا کا کنارا بن جا
 یہ فرض ہے انساں کا اسے پورا کر۔ تو ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا بن جا

مذکورہ رباعیات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قمر سیوانی نے سخن سازی اور شعر گوئی ہی نہیں سیکھی ہے بلکہ اس صنف کو عقیدت سے گلے لگایا ہے ۔دن رات محنت کی ہے‘ شعر گوئی کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مشق ومزاولت سے بھی گزرے ہیں ۔ ذہن و جسم کو علم کی بھٹی میں تپایا بھی ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاگرد کو سنوارنے اور نکھارنے میں استاد کے دست کرم کو خاص اہمیت حاصل ہے مگر مٹی کو بھی زرخیز ہونا لازمی ہے ۔ لہٰذا میں کہہ سکتا ہوں کہ قمر سیوانی کے ذہن کی مٹی سوندھی بھی ہے اور ثمرخیز بھی۔ ان کے خیالات میں پختگی بھی ہے اور تازگی بھی ۔کچھ کچھ نیاپن بھی ہے۔ موصوف کی چند رباعیات اور ملاحظہ فرمائیں:
جب پھیلتی ہے ذہن پہ احساس کی دھوپ ۔اس دھوپ سے ملتی ہے گلے آس کی دھوپ 
اس وقت نظر اٹھتی ہے بادل کی طرف۔جب لب پہ اترتی ہے مرے پیاس کی دھوپ 
٭
جذبات کے چہرے کا نہ بدلے تیور ۔ہوجائے نہ پاگل کہیں قلبِ مضطر 
ٹانکے نہ کہیں ٹوٹیں مرے زخموں کے۔انگڑائی پہ انگڑائی نہ لے اے بستر 
٭
کانٹوںکی طرح چبھتی ہے سورج کی کرن۔انگاروں کی زنجیر ہے دل سوز پون 
بکھرے نہ کہیں ٹوٹ کے نازک احساس۔پتھر کے حصاروں میں ہے شیشے کا بدن 
 ٭
ماضی کے تمدن کی نشانی دے دے ۔تصویر مجھے کوئی پرانی دے دے
اے دور ِرواں جس میں ہے گم عمر مری۔وہ صبح حسیں ، شام سہانی دے دے





ان رباعیات کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہو تا ہے کہ شاعر کے یہاں اسلوب کی فراوانی ہے ۔ زبان پر قدرت ہے ، بیان میں ندرت ہے‘بندشِ الفاظ کا سلیقہ ہے‘ مرصع سازی کے ہنر سے وہ واقف ہے‘ تخیلات و تصورات کی دنیا میں اڑنے اور بھٹکنے کا وہ روادار نہیں‘ستارے توڑلانے اور شاعری میںرنگ بھرنے کے عمل سے وہ بہرہ ور‘مشاق اور ماہر بھی ہے ۔احساس کی دھوپ، آس کی دھوپ ، قلبِ مضطر ، انگاروں کی زنجیر ، دل سوز پون ‘دامان گل،نازک احساس ،جذبات کے صفحات اور الفاظ کی قندیل ایسے تراکیب و استعارے ہیں جن کی بنت کاری یا ترکیب سازی کی جتنی داد دی جائے کم ہے ۔ مضامیں بندی میں بھی جدت اور انوکھا پن صاف دکھتا ہے۔ انسان کی چاہت ،دل کی پیاس اور شدتِ احساس ،زخموں کے ٹانکے ٹوٹنے کا خوف ، ہمت حوصلہ اور دلی مسرت کا اظہار کیا نہیں ہے جناب کی رباعی میں ۔ کچھ اور رباعیات دیکھیں :
سہمی ہوئی موجوں کے اشارے آئے۔خاموش سمندر کے اشارے آئے 
طوفان کو جب مات وہ دے کر آئی۔کشتی سے گلے ملنے کنارے آئے   
میدان میں تلوار زباں کھولتی ہے۔منجدھار میں پتوار زباں کھولتی ہے
ہو تم کو اگر ذوقِ سماعت تو سنو ۔تنہائی میں دیوار زباں کھولتی ہے 
٭
رباعی گوئی در اصل مشکل صنف سخن ہے ۔اس کثیف اور یخ بستہ ندی میں سب کی کشتی نہیں چلتی ۔پتوار یں ٹوٹ جاتی ہیں ۔شعور کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔عقل جواب دے دیتی ہے ۔ مخالف ہوائیں اتنی تیز ہوتی ہیں کہ الفاظ کو سنبھالو تو بحر بے ہاتھ ہونے لگتی ہے بحر کو گرفت میں رکھیں تو خیالات منتشر ہونے لگتے ہیں ۔چوتھے مصرع میں آتے آتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس مرکزی خیال کے لئے مصرعے باندھے گئے ہیں ۔ اصل مدعا کہیں دور پیچھے چھوٹ جاتا ہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی رباعی سلیقے سے زینتِ قرطاس ہوگئی تو اسے شاعر کا کمال کہہ سکتے ہیں ۔ اس کی ذہانت کی تعریف کر سکتے ہیں ۔ رباعی بڑی مشکل سے ہاتھ آتی ہے ۔کہیں نہ کہیں کچھ رہ ہی جاتا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں :
تاروں سے بھرے آئے کہاں سے آنچل ۔آنکھوں کے لئے مانگے یہ کس سے کاجل 
کنگن اسے جذبات کا پہنائے کون۔غالب کی طرح کون سنوارے یہ غزل

اس رباعی میں آنچل ‘کاجل کے ساتھ غزل کا قافیہ قابل قبول نہیں ۔اگر کوئی فنی صفات کے تحت لایا گیا ہو تو میں اس سے واقف نہیں ۔ربط اور تسلسل میں بھی کچھ جھول کا احساس ہوتا ہے: ۔ 
دولت کا ، حکومت کا ،سطوت کا خواب ۔شوکت کا امارت کا سیادت کا خواب 
فنکار تھا اردو کا قمر ؔاس نے مگر۔تا عمر نہیں دیکھا شہرت کا خواب 
اس رباعی میں بھی سطوت،شہرت کے ساتھ سیادت کا قافیہ استعمال میں لایا گیا ہے جو مناسب نہیں ،جائز بھی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود میں شاعر کی دیگر اور مناسب خوبیوں سے انکا ر نہیں کر سکتا ۔ یہ صنف ہی ایسی ہے کہ اچھے اچھوں اور مشاق سے مشاق تر رباعی گو شعرا کو بہکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ پہلے مصرعے سے چوتھے مصرعے تک آتے آتے بحر کب بدل جاتی ہے اس کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ اس کا تیسرا مصرع تو نہایت ہی خطرناک اور شاطر صفت ہوتا ہے جلد حصارِ تحریر میں آتا ہی نہیں۔اسی لئے تمام ناقدین ِ سخن نے اس کی سخت گیری کا اعتراف کیا ہے اور کافی محتاط رہنے کی تلقین کی ہے ۔ مختصر یہ کہ قمر سیوانی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔مور کے پاؤں کبھی مور کے سرا پا کی خوبصورتی کو جھٹلا نہیں سکتے ۔اس لئے میں بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ قمر سیوانی ایک اچھے ،سچے اور خوبصورت رباعی گو شاعر ہیں ۔اللہ انہیں عمر خضر دے تاکہ اردو رباعیات کا دامن اور وسیع ہو سکے ۔آمین۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages