ہم نتیجہ دیکھتے ہیں خواب کی تعبیر کا
فیصلہ بدلا نہ جایے گا کبھی تقدیر کا
زندگی کی آرزوؤں کا محبت نام ہے
دل کو دل سے جوڑتا ہے بند اس زنجیر کا
صدق کی راہوں پہ چلنا ہوگیا مشکل بہت
جس طرح دشوار تر ہے لانا جوئے شیر کا
کام آتی ہیں بزرگوں کی دعائیں بے گماں
جس جگہ پر کام کچھ چلتا نہیں تقدیر کا
اے مری اردو زباں توصیف میں کیسے کروں
ہر زباں پر آج چرچا ہے تری تاثیر کا
واقعی غالبؔ کا اندازِ بیاں بھی خوب ہے
ہے مگر رنگِ غزل پیارا جنابِ میرؔ کا
جانتی ہوں میں بھی نکہتؔ برسرِ روزِ حساب
بارگاہِ رب میں ہوگا فیصلہ تقصیر کا
نسرین نکہت
Raurkela
No comments:
Post a Comment